’ترانہ احتجاج‘، ایرانی ٹیم دباؤ میں نہیں
25 نومبر 2022عالمی کپ فٹ بال کے پہلے میچ میں ایرانی کھلاڑیوں نے ملک میں حکومت مخالف مظاہرین کرنے والوں کے خلاف سخت ترین حکومتی کریک ڈاؤن پر احتجاجاﹰ قومی ترانہ نہیں گایا تھا۔ میچ سے قبل جب ایران کا قومی ترانہ شروع ہوا، تو ایرانی ٹیم کے کھلاڑی قومی ترانے میں شامل ہونے کی بجائے خاموشی سے کھڑے رہے۔ یہ ان کھلاڑیوں کی جانب سے حکومت مخالف مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا ایک اظہاریہ تھا۔
شمالی عراق: ایران کی احتجاجی تحریک کا ایک نیا مرکز؟
مظاہرین نے ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی کے پرانے گھر کو جلا دیا
''ہم کھیلنے آئے ہیں‘‘
جمعے کے روز گروپ بی کے ویلز کے خلاف اپنے دوسرے میچ سے قبل پریس کانفرنس میں تریمی نے کہا، ''میں سیاسی معاملات پر بات نہیں کرنا چاہتا، مگر ہم دباؤ میں نہیں ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''مجھے معلوم تھا کہ اس طرح کا سوال ضرور پوچھا جائے گا، اس لیے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ میں کیا کہتا ہوں، جس نے لکھنا ہے وہ لکھے گا۔ اس لیے میں سیاسی معاملات پر فقط اپنی نجی حلقے یا نجی سوشل میڈیا پر بات کرتا ہوں۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ تریمی ہی نے ایران کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف دونوں گول کیے تھے، انہوں نے کہا، ''ہم یہاں فٹ بال کھیلنے آئے ہیں، صرف ہم نہیں قطر میں تمام کھلاڑی اسی لیے پہنچے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ''میں اور مجھ جیسے ہزاروں انسان یہ طاقت رکھتے ہیں کہ کچھ تبدیلی لا سکیں۔‘‘
کھیل اور سیاست الگ الگ
ایرانی کوچ کارلوس کوئروز نے بھی کہا کہ کھیل اور سیاست کو آپس میں نہیں جوڑا جانا چاہیے۔ پرتگال سے تعلق رکھنے والے ایرانی کوچ نے کہا، ''ہم نہیں چاہتے کہ ایسے معاملات کو ایک ایسے وقت میں زیر بحث لائیں جب ہم فٹ بال کھیلنے پہنچے ہیں۔‘‘
ان کا تاہم کہنا تھا، ''مجھے اس دنیا کے ایک شہری کے طور پر عجیب بات یہ لگ رہی ہے کہ آپ اس طرح کے سوال دوسری قومی ٹیمیوں کے کوچز سے نہیں پوچھ رہے۔ دنیا بھر کے انسانوں کو لاحق مسائل کا سوال فقط ان سے پوچھنا، میری رائے میں مناسب نہیں۔‘‘
سابق ایرانی فٹ بالر گرفتار
ایرانی حکام نے جمعرات کو سابق بین الاقوامی فٹ بال کھلاڑی وریا غفوریکو گرفتار کیا ہے۔ کرد خطے سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی غفوری ان مظاہروں کے بڑے حامی ہیں۔ایران کے لیے سن 2019 تک 28 مرتبہ بین الاقوامی میچز میں کھیلنے والے غفوری کو ایران کے خلاف 'پروپیگنڈا پھیلانے‘ کے الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ وولکر ترک کے مطابق ایران میں بچوں سمیت چودہ ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں سے کم از کم چھ کو سزائے موت بھی سنائی گئی ہے۔
مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن پر عالمی تفتیش
دوسری جانب اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے ایران میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن کی مذمت کرتے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی تفتیش کی منظوری دے دی ہے۔ اس تفتیشی کمیشن کے لیے قرارداد جرمنی اور آئس لینڈ نے پیش کی تھی۔ تہران حکومت کی جانب سے اس قرارداد کو مسترد کرانے کے لیے بھرپور کوششیں کی گئیں تاہم 47 رکنی انسانی حقوق کونسل کی اکثریت نے اس تفتیشی ٹیم کے قیام کی منظوری دے دی۔
اس قرارداد کے خلاف چھ ممالک آرمینیا، چین، کیوبا، اریٹریا، پاکستان اور وینیزویلا نے ووٹ دیا۔ قرارداد کے حق میں 25 ووٹ پڑے جبکہ 16 ممالک نے اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس قرارداد کی منظوری کا خیرمقدم کیا ہے۔
ایران میں 22 سالہ مہسا امینی کو ستمبر میں اسلامی لباس سے متعلق سرکاری ضوابط کی پابندی نہ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں یہ نوجوان لڑکی سرکاری حراست میں ہلاک ہو گئی تھی۔ اس ہلاکت کے بعد سے ایران بھر میں حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں جب کہ ان مظاہرین کے خلاف سخت ترین حکومتی کریک ڈاؤن میں اب تک سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں جب کہ ہزاروں گرفتار ہیں۔