بلوچ علیحدگی پسندوں کی مسلح بغاوت سے متاثرہ پاکستانی صوبہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز نے تربت کے علاقے سے کارروائی کر کے سولہ غیر ملکیوں سمیت اٹھارہ مغویوں کو رہا کرانے کے علاوہ دو اغوا کاروں کو گرفتار بھی کر لیا۔
اشتہار
تربت میں تعینات ایک سینئر سکیورٹی اہلکار نوید الیاس کے مطابق عسکریت پسندوں کے زیر اثر شورش زدہ تمپ کے علاقے میں مغویوں کی بازیابی کے لیے کارروائی انٹیلی جنس اطلاعات پر عمل میں لائی گئی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’’یہ ایک مشترکہ آپریشن تھا، جو حساس اداروں کی معاونت سے کیا گیا۔ اس آپریشن کے دوران ایک مشتبہ کمپاؤنڈ سے جن 18 مغویوں کو بازیاب کرایا گیا، ان میں سے 15 افراد کا تعلق نائجیریا سے، ایک کا یمن سے جبکہ باقی دو کا تعلق پاکستان میں کراچی اور لاہور سے ہے۔ عسکریت پسندوں نے ان افراد کو پاک ایران سرحدی علاقے سے اغوا کر کے اس کمپاؤنڈ میں منتقل کیا تھا۔ تمام مغویوں کو آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ایک تاریک کمرے میں رکھا گیا تھا۔‘‘
نوید الیاس نے بتایا کہ اس کارروائی کے دوران جن سولہ غیر ملکیوں کو رہا کرایا گیا، ان کے پاس کوئی قانونی سفری دستاویزات بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ابتدائی طور پر جو تحقیقات کی گئی ہیں، ان سے معلوم ہوا ہے کہ نائجیریا اور یمن سے تعلق رکھنے والے ان 16 غیر ملکیوں کو تاوان کی ادائیگی کے لیے اغوا کیا گیا تھا۔ یہ افراد پاکستان سے ہو کر افغانستان جانا چاہتے تھے مگر راستے میں عسکریت پسندوں نے انہیں اغوا کر لیا تھا۔ رہا کرائے گئے غیر ملکیوں کے خلاف ضابطے کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔‘‘
بلوچستان کے محکمہ داخلہ کے ایک سینئر اہلکار محمود درانی کے بقول تربت سے بازیاب کرائے گئے افراد میں دو ایسے افراد بھی شامل ہیں، جن پر تفتیشی حکام نے انسانوں کے اسمگلر ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے درانی نے بتایا، ’’انسانوں کی اسمگلنگ کا مسئلہ حکومت کے لیے اس وقت کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ ہم اس حوالے سے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اقدامات کر رہے ہیں۔ انسانوں کی اسمگلنگ میں جو لوگ ملوث ہیں، ان کے بارے میں ہمارے خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں۔ ہمیں حالیہ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث بعض عناصر ان شدت پسند تنظیموں کے ساتھ بھی ملے ہوئے ہیں، جو کہ صوبے میں حکومت مخالف مہم چلا رہے ہیں۔‘‘
محمود درانی نے بتایا کہ انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد نے یمنی اور نائجیرین شہریوں کو بھی بھاری رقوم کےعوض پاک ایران سرحدی علاقے میں منتقل کیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’شدت پسند اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے ذریعے خطیر رقوم حاصل کرتے ہیں۔ یہ ان کے لیے ایک منافع بخش کام ہے۔ جن سادہ لوح افراد کو یورپی ممالک پہنچانے کا جھانسہ دے کر بلوچستان منتقل کیا جاتا ہے، ایجنٹ ان کے خاندانی پس منظر اور مالی پوزیشن کے حوالے سے بعد میں تمام معلومات بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں اکثر ایسے افراد کو اغوا کر کے ان کے خاندانوں سے تاوان طلب کیا جاتاہے۔‘‘ محمود درانی کا کہنا تھا کہ تربت، گوادر اور پنجگور میں ماضی میں بھی مختلف کارروائیوں کے دوران ایسے درجنوں غیر ملکی بازیاب ہو چکے ہیں، جنہیں شدت پسندوں نے مالی مقاصد کے تحت اغوا کیا تھا۔
بلوچستان میں دفاعی امور کے ماہر میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کے بقول انسانوں کی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پا کر حکومت عسکریت پسندوں کو مالی طور پر ’کاؤنٹر کرنے‘ میں اہم کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’’یہ کارروائی اس حوالے سے تو بہت اہم ہے کہ بیک وقت 16 غیر ملکیوں سمیت 18 مغویوں کو رہا کرا لیا گیا۔ لیکن اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تمام تر سکیورٹی انتظامات کے باوجود شورش زدہ علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ’مالیاتی چینلز‘ فعال کیوں ہیں؟ میرا خیال ہے کہ ہمیں داخلی سلامتی کے لیے دیگر امور کے ساتھ ساتھ اپنی ایسی خامیوں پر بھی توجہ دینا ہو گی، جن سے امن اور ترقی کے مخالف عناصر فوائد حاصل کر رہے ہیں۔‘‘
بلوچستان میں پوست کی کاشت کے خلاف بڑا آپریشن
بلوچستان سے سالانہ اربوں روپے کی منشیات بیرون ملک اسمگل ہوتی ہے. فرنٹیئر کور ژوب ملیشیا کے اہلکاروں نے پاک افغان سرحد سے ملحقہ مسلم باغ اور قریبی علاقوں میں ایک آپریشن میں 380 ایکڑ پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کئی ٹن پوست کی خریداری
تیار شدہ پوست کٹائی کے بعد مخصوصی گوداموں میں ذخیرہ کی جاتی ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ یہ پوست ٹنوں کے حساب سے خریدتے ہیں اور بعد میں اسے ہیروئن کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے شورش زدہ مکران ڈویژن، تربت، مند، گوادر، چاغی اور برامچہ کےعلاقوں میں قائم فیکٹریوں میں دنیا کی اعلیٰ ترین ہیروئن تیار کی جاتی ہے، جو غیر قانونی راستوں سے بین الاقوامی مارکیٹ کو اسمگل کر دی جاتی ہے.
تصویر: DW
ایک منافع بخش کاروبار
زیرنظرتصویر ضلع لورالائی کے علاقے دکی کی ہے، جہاں اس آپریشن کے دوران 60 ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تباہ کی گئی۔ بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں پوست کی کاشت لوگوں کے لیے ایک منافع بخش کاروبار ہے اس لیے سخت پا بندی کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد ان علاقوں میں پوست کاشت کرتی ہے۔
تصویر: DW
ٹریکٹروں کا استعمال
پاکستانی صوبہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز نے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہمراہ مختلف علاقوں میں آپریشن کے دوران سینکڑوں ایکڑ زمیں پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی ہے ۔ اس کارروائی میں مقامی لوگوں نے بھی فورسز کی معاونت کی اور پوست تلف کرنے کے لیے ٹریکٹر بھی استعمال کئے گئے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
پوست کے نئے کھیت
لورالائی کے علاقے میختر میں پوست کی سب سے زیادہ فصل کاشت کی گئی تھی۔ یہاں 190 ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی گئی۔ منشیات کے اسمگلروں نے اس بارپوست کی کاشت کے لیے یہاں ایسے کھیتوں کا انتخاب کیا تھا جہاں اس سے قبل پوست کاشت نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: DW
زیادہ فصلیں غیر مقامی افراد کی
حکام کے مطابق پوست کی کاشت کے خلاف ہونے والے اس خصوصی آپریشن میں تلف کی گئی اکثر فصلیں غیر مقامی افراد کی ملکیت تھیں۔ پوست کاشت کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات بھی درج کر لیے گئے ہیں اور مقامی انتظامیہ کے اہلکار ان مقدمات میں نامزد افراد کی گرفتاری کے لیے کارروائی کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
دالبندین اور ملحقہ علاقے
سکیورٹی فورسز نے پوست کی کاشت تلف کرنے کے لیے ضلع چاغی، دالبندین اور ملحقہ علاقوں میں بھی کارروائی کی، جہاں اب تک 90 ایکڑ زمین پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی جا چکی ہے۔ یہ پوست مقامی آبادی سے کافی دورپہاڑوں کے دامن میں کاشت کی گئی تھی۔ اس کاروبار میں ملوث افراد ایک ایکڑ زمین پر پوست کاشت کرنے کا دو لاکھ روپے تک معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ اسمگلروں نے یہ زمین پوست کی کاشت کے لیے لیز پر حاصل کی تھی۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
ڈرگ مافیا ایک مدت سے سرگرم
پوست کی فصل کے خلاف جاری اس آپریشن میں سکیورٹی فورسز نے دکی کے علاقے میں 65 ایکڑ زمین پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی۔ ڈرگ مافیا کے لوگ بڑے پیمانے پر یہاں ماضی میں بھی پوست کی کاشت کرتے رہے ہیں اور اس سے قبل بھی یہاں سینکڑوں ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی جا چکی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
تیار فصلوں کی بھی تلفی
بلوچستان کے پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں اس کارروائی کے دوران پوست کی تازہ اگائی ہوئی فصلوں کے ساتھ ساتھ ایسی فصلیں بھی تباہ کی گئیں جو تیار ہو چکی تھیں۔ حکام کے مطابق کٹائی کے بعد اسمگلر ان فصلوں سے حاصل ہونے والی پوست ہیروئن کی فیکٹریوں میں سپلائی کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔
تصویر: DW
1999ء کا پاکستان پوست سے پاک قرار پایا تھا
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بین الاقوامی سطح پر انیس سو ننانوے میں پاکستان کو پوست سے پاک علاقہ قرار دے دیا گیا تھا لیکن اب پھر اس کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجوہات ماہرین زیادہ آمدنی بتاتے ہیں۔ قلعہ سیف اللہ، ژوب اور منزکئی کے علاقے میں کارروائی کے دوران اسمگلروں کے دو ٹھکانے تباہ بھی کیے گئے اور بڑی مقدار میں برآمد کی گئی پختہ پوست بعد میں منزکئی کے ایک میدان میں نذر اتش کر دی گئی۔
تصویر: DW
پوست کی کاشت اور عسکریت پسندی
مکران ڈویژن میں ہیروئن کے بعض اسمگلرز منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصہ عسکریت پسندوں کو بھی فراہم کرتے ہیں، جس سے وہ اپنے لیے اسلحہ اور سامان خریدتے ہیں۔ اس لیے پوست کے خلاف کی جانے والی اس حالیہ کارروائی کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اسمگلروں اور عسکریت پسندوں کے درمیان رابطوں کو ختم کیا جائے.
تصویر: DW
منشیات کی کاشت اور خرید و فروخت کرنے والے
پوست کی کاشت کےخلاف ہونے والی اس کارروائی کے دوران مختلف علاقوں سے 45 ایسے افراد بھی گرفتار کیے گئے ہیں جو کہ پوست کی فصل کی کاشت اور اس کی خرید و فروخت میں ملوث تھے۔ ان افراد کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال بلوچستان اسمبلی میں پوست کی کاشت کے خلاف منظور کی گئی ایک متفقہ قرارداد میں قلعہ عبداللہ اور دیگر علاقوں میں پوست کی فصلیں تلف کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تصویر: DW
بلوچستان، ڈہائی لاکھ افراد منشیات کے عادی
بلوچستان میں پوست کی کاشت میں اضافے کے ساتھ ساتھ منشیات کےعادی افراد کی تعداد میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق آج کل بلوچستان میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد منشیات استعمال کرتے ہیں، جن میں اسّی ہزار افراد ہیروئن کےعادی ہیں۔
تصویر: DW
12 تصاویر1 | 12
عمر فاروق کا کہنا تھا کہ غیر ملکیوں کو اغوا کر کے شدت پسند پاکستان کو دباؤ میں لانے کی شروع سے ہی کوشش کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ’’بلوچستان میں غیر ملکیوں کا اغوا کوئی نئی بات نہیں۔ غیرملکیوں کے اغوا کے ذریعے عسکریت پسند مالی فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی رٹ کو بھی چیلنج کرتے رہے ہیں اور ماضی میں کئی غیر ملکیوں کو اغوا کے بعد قتل بھی کیا جا چکا ہے۔ اگر ملک میں امیگریشن قوانین پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو اس ضمن میں خاطر خواہ نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔‘‘
ذرائع کے مطابق تمپ کے علاقے سے رہا کرائے گئے تمام 18 افراد کو سکیورٹی فورسز نے ابھی تک اپنی حراست میں رکھا ہوا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے کوئٹہ میں جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ انٹیلی جنس اطلاعات پر ہونے والی اس کارروائی کے دوران بھاری اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا۔ برآمد کیے گئے اسلحہ میں متعدد دیسی ساخت کے ایسے بم بھی شامل ہیں، جو عسکریت پسندوں نے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کر رکھے تھے۔
رواں ماہ تربت میں ٹارگٹ کلنگ کے دو مختلف واقعات کے دوران 20 آبادکاروں کی ہلاکت کے بعد بلوچستان بھر میں شدت پسندوں کے خلاف جاری کارروائیوں میں تیزی لائی جا چکی ہے۔ گزشتہ روز مکران ڈویژن کی حدود میں بلنگور کے قریب بھی اسی نوعیت کی ایک کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں دو مبینہ شدت پسند ہلاک ہو گئے تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اس آپریشن کے دوران ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ تین دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ تینوں زخمی اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
کوئٹہ بم دھماکا: ہر طرف لاشیں، خون اور آنسو
پاکستانی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے سول ہسپتال کے سامنے آج پیر آٹھ اگست کو ہونے والے ایک طاقت ور بم دھماکے میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور بیسیوں دیگر زخمی ہو گئے۔ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
دھماکے کے نتیجے وہاں موجود ؤر آنکھ پرنم نظر آئی جبکہ ہلاک ہونے والوں کے رشتہ دار اور دوست اپنے جاننے والوں کو دلاسہ دیتے اور صبر کرنے کی تلقین کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
شام اور عراق میں سرگرم عسکریت پسند تنظیم داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ وہ مقامی عسکری گروپ ہو سکتے ہیں، جو داعش کے ساتھ الحاق کا اعلان کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اس بم حملے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وکلاء اور صحافیوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی انتظامات فوری طور پر مزید بہتر بنائے جائیں۔
تصویر: Reuters/Naseer Ahmed
بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اس دھماکے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ اس بم حملے میں مقامی وکلاء اور ان کے نمائندوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
اس ہلاکت خیز بم حملے کے بعد صوبائی دارالحکومت کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے جبکہ صوبائی وزیر صحت نے اپنے ایک بیان میں ہلاک شدگان کی تعداد 93 بتائی ہے۔ اس تعداد کی دیگر ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
تصویر: Reuters/N. Ahmed
پولیس کے مطابق یہ بم دھماکا اس وقت کیا گیا جب سول ہسپتال کوئٹہ کے باہر بہت سے وکلاء جمع تھے، جن کے ایک سینئر ساتھی کو آج ہی قتل کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
پاکستانی نجی ٹی وی اداروں کے مطابق اس دھماکے میں جو کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے، ان میں 25 کے قریب وکلاء بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ ایک خودکش حملہ تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں میڈیا کے نمائندے بھی شامل ہیں۔