خواتین کی صرف نصف تعداد جسمانی طور پر خود مختار، اقوام متحدہ
15 اپریل 2021
اقوام متحدہ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی صرف نصف تعداد جسمانی طور پر خود مختار ہے۔ دوسرے نصف حصے کو ریپ، جنسی استحصال، جبراﹰ بانجھ بنا دیے جانے اور جنسی اعضاء کی قطع برید جیسے حملوں اور مسائل کا سامنا ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کی اس نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر معاشروں میں عورتوں کی نصف آبادی کو یہ اختیار ہی حاصل نہیں کہ وہ اپنے جسم اور اس کے ذریعے اپنی ذات اور شخصیت پر اثر انداز ہونے والے حالات، واقعات اور عوامل سے متعلق تمام فیصلے خود کر سکیں۔
اس کا نتیجہ یہ کہ بات چاہے جنسی میل ملاپ کی ہو، صحت کی سہولیات کی دستیابی کی یا مانع حمل ذرائع کے استعمال کی، دنیا کے غیر ترقی یافتہ اور کم ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کی تقریباﹰ نصف تعداد اپنے جسموں سے متعلق کیے جانے والے فیصلوں پر کسی بھی طرح کے کنٹرول سے محروم ہے۔ ان عورتوں اور لڑکیوں کے لیے یہ فیصلے دوسرے لوگ کرتے ہیں۔
'میرا جسم تو میرا اپنا ہے‘
عالمی ادارے کی طرف سے دنیا کے 57 ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی صورت حال سے متعلق بدھ تیرہ اپریل کو جاری کردہ اس رپورٹ کو ''میرا جسم تو میرا اپنا ہے‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں شامل کردہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ ان تقریباﹰ پانچ درجن ممالک کی عورتوں میں سے ہر دوسری عورت اس حوالے سے خود آزادانہ فیصلے کرنے سے محروم ہے کہ اس کو جسمانی طور پر کس طرح کے حالات کا سامنا ہے یا ہو گا۔
اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اپنے لیے 'باڈی اٹانومی‘ (body autonomy) یا جسمانی خود مختاری سے محروم خواتین کو 'دوسروں کے کیے گئے‘ جن فیصلوں کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں، ان میں جنسی زیادتی اور جنسی استحصال جیسے حملوں سے لے کر طبی طور پر بانجھ بنا دیے جانے اور جنسی اعضاء کی قطع برید جیسے ظالمانہ اقدامات بھی شامل ہیں۔
اشتہار
'کروڑوں عورتیں اور لڑکیاں اپنے ہی جسموں کی مالک نہیں‘
عالمی ادارے کے جنسی اور تولیدی صحت سے متعلق ادارے کا نام 'اقوام متحدہ کا آبادی سے متعلقہ امور کا فنڈ‘ (UNFPA) ہے۔ اس ادارے کی سربراہ نتالیا کانیم نے اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر کہا، ''اس صورت حال کا خلاصہ یہ ہے کہ کئی سو ملین عورتیں اور لڑکیاں خود اہنے ہی جسموں کی مالک نہیں ہیں۔ ان کی زندگیاں دوسروں کے کنٹرول میں ہیں۔‘‘
یو این ایف پی اے کی سربراہ کے مطابق ایسی خواتین اور لڑکیوں کے لیے ان کے جسموں سے متعلق فیصلے کرنے والے ان 'دوسرے‘ انسانوں اور گروپوں میں متاثرہ عورتوں اور لڑکیوں کے شریک حیات، اہل خانہ، معاشرہ اور حکومتیں سبھی شامل ہوتے ہیں۔
درپردہ عوامل اور مسائل کیا؟
عالمی ادارے کے آبادی سے متعلقہ امور کے فنڈ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نتالیا کانیم نے کہا کہ اس وسیع تر ناانصافی کے پس پردہ عوامل کو بنیادیں اکثر معاشرتی ڈھانچے، سماجی مسائل، پدر شاہی روایات اور جنسی معاملات سے جڑی ہوئی وہ باتیں فراہم کرتی ہیں، جن کے بارے میں کھل کر بات کرنے کو ایک ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے۔
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين غلامی پر مجبور ہيں اور کئی صورتوں ميں خواتين کا استحصال جاری ہے۔ جبری مشقت، کم عمری ميں شادی، جنسی ہراسگی اور ديگر کئی جرائم سے سب سے زيادہ متاثرہ عورتيں ہی ہيں۔
تصویر: dapd
جدید غلامی کيا ہے؟
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images
تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت، قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔
تصویر: Sazzad Hossain/DW
جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Bouys
نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم
'واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا 'ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی، جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔
نتالیا کانیم کے الفاظ میں، ''یہ وہ بڑے اسباب ہیں، جن کی وجہ سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کے مرد رشتے دار اور اہل خانہ اپنی زیادہ بااثر او طاقت ور حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے متعلقہ نسوانی آبادی کے ان کے جسموں سے متعلق اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔‘‘
جسمانی خود مختاری چھین لیے جانے کے نتائج
یو این ایف پی اے کی اس رپورٹ کے مطابق جب متاثرہ خواتین کو انہی کی ذات سے متعلق ان کے شخصی اختیارات اور حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے، تو خاندانی سے لے کر سماجی سطح تک عدم مساوات میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی ناانصافی صنفی امتیاز کے رجحان کو بھی تقویت دیتی ہے۔
نتالیا کانیم نے کہا، ''جب کنٹرول متعلقہ نسوانی آبادی کے بجائے دوسروں کے پاس رہتا ہے، تو متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے جسمانی خود مختاری کی منزل کا حصول ممکن نہیں رہتا۔‘‘
م م / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی)
صنف نازک کے ہاتھوں میں کن ممالک کی باگ ڈور ہے
دنیا میں کُل ایک سو پچانوے ممالک اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں ہیں۔ ان میں اکثریت پر مرد حکومتوں کے سربراہ ہیں۔ خواتین سربراہانِ حکومت و مملکت کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/Lehtikuva/V. Moilanen
سانا مارین
چونتیس سالہ سانا مارین کو حال ہی میں فن لینڈ کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنا لیڈر بھی منتخب کیا ہے۔ انہوں نے دس دسمبر بروز منگل کو منصب وزارتِ عظمیٰ سنبھال کر دنیا کی کم عمر ترین وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ وزیراعظم بننے کے دو ہی روز بعد انہوں نے یورپی یونین کی سمٹ میں اپنے ملک کی نمائندگی کی تھی۔
تصویر: Reuters/Lehtikuva/V. Moilanen
جیسنڈا آرڈرن
اکتوبر سن 2017 سے جیسنڈا آرڈرن نیوزی لینڈ کی وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے سینتیس برس کی عمر میں نیوزی لینڈ کے چالیسویں وزیراعظم کا حلف اٹھایا تھا۔ وہ دوسری خاتون وزیراعظم ہیں جنہیں اس منصب پر رہتے ہوئے ماں بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اُن سے پہلے پاکستان کی مقتول وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے ہاں اس منصب پر فائز رہتے ہوئے بچے کی ولادت ہوئی تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Keith
جینین انیز
لاطینی امریکی ملک بولیویا کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صدر ایوو موریلس کے رواں برس نومبر میں مستعفی ہونے کے بعد ملکی صدارت باون سالہ خاتون رہنما جینین انیز نے سنھبال رکھی ہے۔ وہ اس سے پہلے سینیٹ کی نائب صدر تھیں۔ وہ دائیں بازو کی قدامت پسند رہنما ہیں۔ انہوں نے جلد از جلد پارلیمانی انتخابات کرانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Karita
سوفی وِلمز
بیلجیم کی سابق وزیر بجٹ سوفی ولمز نے رواں برس ستائیس اکتوبر کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے۔ وہ اپنے ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم ہیں۔ چوالیس سالہ سیاستدان فرانسیسی بولنے والی سیاسی جماعت لبرل سنٹرسٹ ایم آر پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Belga/V. Lefour
زُوزانا چاپُوٹووا
سلوواکیہ کی عوام نے مارچ سن 2019 کو زُوزانا چاپُوٹووا کو اپنے ملک کا صدر منتخب کیا تھا۔ وہ اس ملک کی صدارت سنبھالنے والی پہلی خاتون ہیں۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد انہوں نے پندرہ جون کو صدر کا منصب سنبھالا۔ وہ پینتالیس برس کی عمر میں صدر بنی، اس طرح سلوواکیہ کی تاریخ کی کم عمر ترین صدر ہیں۔ انہوں نے صدارتی الیکشن میں کامیابی ماحول دوستی اور انسداد بدعنوانی کی بنیاد پر حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Gluck
انگیلا میرکل
جرمنی میں سن 2005 سے چانسلر کے منصب پر انگیلا میرکل فائز ہیں۔ اکاون برس کی عمر میں وہ جرمنی کی پہلی خاتون قائدِ حکومت بنی تھیں۔ وہ اس وقت اپنی چوتھی اور آخری چانسلر شپ کی مدت مکمل کر رہی ہیں۔ میرکل کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتی ہیں۔ ان کی حکومتی مدت سن 2021 میں مکمل ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O.Hoslet
ساحلے ورک زوڈے
افریقی ملک ایتھوپیا کی پارلیمنٹ نے انہتر سالہ سابقہ سفارت کار ساحلے ورک زوڈے کو ملک کا پانچواں صدرمنتخب کیا۔ ایتھوپیا میں صدر کا منصب دستوری نوعیت کا ہے اور انتہائی محدود اختیارات کا حامل ہے۔ وہ ایتھوپیا کی صدر بننے والی پہلی خاتون ہیں۔ وہ اقوام متحدہ میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہ چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Allegri
سائی انگ وین
جمہوریہ چین یا تائیوان کی پہلی خاتون صدر سائی انگ وین نے بیس مئی سن 2016 میں منصب صدارت کا حلف اٹھایا تھا۔ وہ سن 2020 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر چکی ہیں۔ وہ تائیوان کی حکمران ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کی سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے عوامی جمہوریہ چین کے حوالے سے سخت پالیسی اپنا رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
ایرنا سولبرگ
ناروے کی وزارت عظمیٰ بھی ایک خاتون ایرنا سولبرگ نے سنبھال رکھی ہے۔ وہ اس منصب پر سولہ اکتوبر سن 2013 کو فائز ہوئی تھیں۔ سابق برطانوی خاتون وزیراعظم مارگریٹ تھیچر سے وہ متاثر ہیں۔ تھیچر کو ’آئرن لیڈی‘ کی عرفیت حاصل تھی اور اس مناسبت سے ناروے کی وزیراعظم کو ’آئرن ایرنا‘ کہا جاتا ہے۔ اٹھاون سالہ سیاستدان ناروے کی دوسری خاتون وزیراعظم ہیں۔ وہ ناروے کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ بھی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Wivestad Groett
سارا کونگونگیلا اما ڈیلا
باون سالہ سارا کونگونگیلا اماڈیلا نمیبیا کی چوتھی وزیراعظم ہیں۔ وہ اس منصب پر سن 2015 سے فائز ہیں۔ وہ ٹین ایجر کے دور میں حکومتی جبر کی وجہ سے ہمسایہ ملک سیرالیون جلا وطن ہو گئی تھیں۔ انہوں نے ملک لوٹنے سے قبل امریکا سے اکنامکس میں گریجوایشن کی تھی۔ وہ خواتین کے حقوق کی پرزور حامی ہیں اور وہ پہلی خاتون ہیں جو نمیبیا کی سربراہ حکومت ہیں۔
تصویر: Imago/X. Afrika
شیخ حسینہ
بنگلہ دیش کی دسویں وزیراعظم اور اس منصب پر سب سے لمبے عرصے تک فائز رہنے والی خاتون بہتر سالہ شیخ حسینہ ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں۔ فوربز میگزین انہیں مسلسل سن 2016 لے سے 2018 تک دنیا کی ایک سو با اثر خواتین میں شمار کرتا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildfunk
کولینڈا گرابار کیٹارووچ
اکاون برس کی کولینڈا گرابار کیٹارووچ بلقان خطے کے ملک کروشیا کی سربراہِ مملکت ہیں۔ وہ یہ منصب سنبھالنے سے قبل مختلف حکومتی عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ امریکا میں اپنے ملک کی سفیر بھی رہ چکی ہیں۔ سن 2015 میں صدارتی انتخاب جیت کر صدر بننے والی خاتون رہنما اپنے ملک کی کم عمر ترین صدر بنی تھیں۔