1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافریقہ

خواتین کی صرف نصف تعداد جسمانی طور پر خود مختار، اقوام متحدہ

15 اپریل 2021

اقوام متحدہ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی صرف نصف تعداد جسمانی طور پر خود مختار ہے۔ دوسرے نصف حصے کو ریپ، جنسی استحصال، جبراﹰ بانجھ بنا دیے جانے اور جنسی اعضاء کی قطع برید جیسے حملوں اور مسائل کا سامنا ہے۔

تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

اقوام متحدہ کی اس نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر معاشروں میں عورتوں کی نصف آبادی کو یہ اختیار ہی حاصل نہیں کہ وہ اپنے جسم اور اس کے ذریعے اپنی ذات اور شخصیت پر اثر انداز ہونے والے حالات، واقعات اور عوامل سے متعلق تمام فیصلے خود کر سکیں۔

خواتین کو بااختیار بنانے کے وعدے اور انتخابات

اس کا نتیجہ یہ کہ بات چاہے جنسی میل ملاپ کی ہو، صحت کی سہولیات کی دستیابی کی یا مانع حمل ذرائع کے استعمال کی، دنیا کے غیر ترقی یافتہ اور کم ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کی تقریباﹰ نصف تعداد اپنے جسموں سے متعلق کیے جانے والے فیصلوں پر کسی بھی طرح کے کنٹرول سے محروم ہے۔ ان عورتوں اور لڑکیوں کے لیے یہ فیصلے دوسرے لوگ کرتے ہیں۔

'میرا جسم تو میرا اپنا ہے‘

عالمی ادارے کی طرف سے دنیا کے 57 ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی صورت حال سے متعلق بدھ تیرہ اپریل کو جاری کردہ اس رپورٹ کو ''میرا جسم تو میرا اپنا ہے‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔

خواتین کے حوالے سے آن لائن سرچ، فقط جنسی تصاویر؟

اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلقہ امور کے فنڈ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نتالیا کانیم تصویر: Luiz Rampelotto/EuropaNewswire/picture alliance

رپورٹ میں شامل کردہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ ان تقریباﹰ پانچ درجن ممالک کی عورتوں میں سے ہر دوسری عورت اس حوالے سے خود آزادانہ فیصلے کرنے سے محروم ہے کہ اس کو جسمانی طور پر کس طرح کے حالات کا سامنا ہے یا ہو گا۔

یومِ نسواں، دن کا ارتقا اور حقوق کا حصول

اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اپنے لیے 'باڈی اٹانومی‘ (body autonomy) یا جسمانی خود مختاری سے محروم خواتین کو 'دوسروں کے کیے گئے‘ جن فیصلوں کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں، ان میں جنسی زیادتی اور جنسی استحصال جیسے حملوں سے لے کر طبی طور پر بانجھ بنا دیے جانے اور جنسی اعضاء کی قطع برید جیسے ظالمانہ اقدامات بھی شامل ہیں۔

'کروڑوں عورتیں اور لڑکیاں اپنے ہی جسموں کی مالک نہیں‘

عالمی ادارے کے جنسی اور تولیدی صحت سے متعلق ادارے کا نام 'اقوام متحدہ کا آبادی سے متعلقہ امور کا فنڈ‘ (UNFPA) ہے۔ اس ادارے کی سربراہ نتالیا کانیم نے اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر کہا، ''اس صورت حال کا خلاصہ یہ ہے کہ کئی سو ملین عورتیں اور لڑکیاں خود اہنے ہی جسموں کی مالک نہیں ہیں۔ ان کی زندگیاں دوسروں کے کنٹرول میں ہیں۔‘‘

صرف عورت آزادی مارچ یا کوئی عملی کام بھی؟

دنیا کے ستاون ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی آبادی کے نصف حصے کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہی نہیں کہ ان کے جسموں کے ساتھ کیا ہو گا یا کیا کیا جائے گاتصویر: Alexis Huguet/AFP/Getty Images

میرا جسم اور تمہاری خوش گمانیاں

یو این ایف پی اے کی سربراہ کے مطابق ایسی خواتین اور لڑکیوں کے لیے ان کے جسموں سے متعلق فیصلے کرنے والے ان 'دوسرے‘ انسانوں اور گروپوں میں متاثرہ عورتوں اور لڑکیوں کے شریک حیات، اہل خانہ، معاشرہ اور حکومتیں سبھی شامل ہوتے ہیں۔

درپردہ عوامل اور مسائل کیا؟

عالمی ادارے کے آبادی سے متعلقہ امور کے فنڈ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نتالیا کانیم نے کہا کہ اس وسیع تر ناانصافی کے پس پردہ عوامل کو بنیادیں اکثر معاشرتی ڈھانچے، سماجی مسائل، پدر شاہی روایات اور جنسی معاملات سے جڑی ہوئی وہ باتیں فراہم کرتی ہیں، جن کے بارے میں کھل کر بات کرنے کو ایک ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے۔

ماں، بہن اور بیٹی، کیا صرف آپ کی ہی قابل احترام ہے؟

’میرا جسم میری مرضی‘: خواتین کا عالمی دن متنازعہ

نتالیا کانیم کے الفاظ میں، ''یہ وہ بڑے اسباب ہیں، جن کی وجہ سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کے مرد رشتے دار اور اہل خانہ اپنی زیادہ بااثر او طاقت ور حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے متعلقہ نسوانی آبادی کے ان کے جسموں سے متعلق اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔‘‘

جسمانی خود مختاری چھین لیے جانے کے نتائج

یو این ایف پی اے کی اس رپورٹ کے مطابق جب متاثرہ خواتین کو انہی کی ذات سے متعلق ان کے شخصی اختیارات اور حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے، تو خاندانی سے لے کر سماجی سطح تک عدم مساوات میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی ناانصافی صنفی امتیاز کے رجحان کو بھی تقویت دیتی ہے۔

’میرا جسم میری مرضی‘

نتالیا کانیم نے کہا، ''جب کنٹرول متعلقہ نسوانی آبادی کے بجائے دوسروں کے پاس رہتا ہے، تو متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے جسمانی خود مختاری کی منزل کا حصول ممکن نہیں رہتا۔‘‘

م م / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں