1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافریقہ

ترقی پذیر ممالک کو لاحق قرضوں کا بحران، ورلڈ بینک کا انتباہ

16 فروری 2022

قرضوں کے سر اٹھاتے بحران کی وجہ سے غریب ممالک کے مجموعی حالات بہت مشکل ہو جائیں گے۔ اس وقت ترقی پذیر اقوام کو عالمی کساد بازاری کی شدت کا بھی سامنا ہے۔

Afrika Ghana Smartphone junge Menschen Frauen Mädchen
تصویر: Musa Alcan/AA/picture alliance

دنیا کے بعض غریب ترین ممالک کو درپیش قرضوں کے بحران کی بڑی وجہ کووڈ انیس کی وبا ہے۔ رواں برس 70 فیصد سے زائد کم آمدن والی اقوام کو قرضوں کی اضافی قسطوں کی ادائیگی کی مد میں 11 بلین ڈالر (قریب دس بلین یورو) کا سامنا ہے۔ یہ سن 2020 کے مقابلے میں 45 فیصد زیادہ ہے۔

جرمنی میں مہاجرین پر خرچے کی وجہ سے اقتصادی تیزی

غریب ممالک کو درپیش اس بحران کی نشاندہی عالمی بینک (ورلڈ بینک) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کی ہے۔ عالمی بینک نے ان قرضوں کے معاملے کو مخفی غیر شفاف قرضے قرار دیا ہے اور ان کی وجہ سے کم آمدنی والے افراد اور چھوٹے کاروبار رکھنے والوں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

قرضوں کے بحران کی نشاندہی عالمی بینک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کی ہےتصویر: Andrew Harnik/AP/picture alliance

منصفانہ ریکوری ممکن ہے؟

عالمی بینک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں اپنی توجہ عالمی اقتصادیات کے چند مخصوص پہلووں پر مرکوز کی ہے۔ ان میں خاص طور پر متوسط اور کم آمدنی والے ممالک کی معاشی ترقی پر بھی نظر رکھی گئی ہے۔

ورلڈ بینک کی سالانہ رپورٹ کا عنوان 'مالیات برائے منصفانہ ریکوری‘ تجویز کیا گیا ہے۔ اس میں بحث کی گئی ہے کہ غیر مستحکم مالیاتی نظام کی وجہ سے ترقی پذیر معیشتوں پر قرضوں کا بوجھ پہاڑ کی ہیئت اختیار کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے انہیں دوسرے مالیاتی مسائل کا سامنا ہے، جن میںبڑھتی افراطِ زر اور شرحِ سود خاص طور پر اہم ہیں۔

امریکی مالیاتی بحران، مہلت ختم ہوتی ہوئی تاہم تعطل برقرار

سالانہ رپورٹ میں ورلڈ بینک کے صدر ڈیوڈ ملپاس نے تحریر کیا کہ افراطِ زر سے اٹھنے والے اقتصادی بحران کے ساتھ بلند شرحِ سود اصل میں کمزور مالیاتی سلسلے کا شاخسانہ ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ کورونا وبا نے اقتصادی چیلنجز کو زیادہ شدت کے ساتھ واضح کر دیا ہے۔ ان چیلنجز میں غیر استعمال شدہ قرضوں کی شفافیت اور قرض ادائیگیوں میں تاخیر ہے۔

ورلڈ بینک کے صدر ڈیوڈ میلپاستصویر: Indraneel Chowdhury/NurPhoto/picture alliance

معاشی خطرات

عالمی بینک کے مطابق ناقص قرضوں کی نشاندہی نہ کرنا ان کو مزید خراب کرنے کے مترادف ہے۔ اس تناظر میں مزید کہا گیا کہ قرضوں کی نشاندہی قرض دینے والے ملک کے معاشی استحکام لیے بہتر ہوتا ہے اور دوسری جانب خاص طور پر چھوٹے کاروبار اور کم آمدنی والے افراد کے گھروں کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ اس رپورٹ میں ایسے خطرات کی وضاحت کی گئی ہے جن کی وجہ سے قرض دینے کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔

ہسپانوی ادارے اور عوامی اعتماد میں کمی کا رجحان

عالمی بینک کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دنیا بھر میں 50 فیصد گھروں کو اگلے تین ماہ کے دوران شدید مشکلات کا سامنا ہو گا کیونکہ بنیادی ضروریات کو پورا کرنا بھی ایک تکلیف دہ امر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی بیان کیا گیا کہ اقتصادی مشکلات کی شدت اتنی بڑھ سکتی ہے کہ اوسط درجے کے کاروبار بمشکل دو ماہ کے اخراجات پورے کر سکیں گے۔

ترجیحات دوبارہ مرتب کرنا ضروری

اس رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں نصف کاروبار وبا کے بعد کے وقت میں زوال پذیر ہو جائیں گے۔ ورلڈ بینک کی چیف اکانومسٹ کارمین رائنہارٹ کا کہنا ہے کہ بحرانی حالات سے قبل کئی معاشی کمزوریاں سامنے بھی نہیں آئی تھیں اور اس عمل نے بھی صورت حال کو گھمبیر بنایا ہے۔

ترقی پذیر اقوام کی مالی مشکلات کی ایک بڑی وجہ کورونا وبا قرار دی گئی ہےتصویر: Kola Sulaimon/AFP/Getty Images

کارمین رائنہارٹ نے تجویز کیا ہے کہ اب ترجیحات کو ازسرنو مرتب کرنا ہو گا اور ایسے اقدامات متعارف کرانے ہوں گے جن سے  مستحکم مالیاتی نظام استوار کیا جا سکے اور اگر ایسا کرنے میں تاخیر ہوئی تو کمزور معیشتوں کی صورت حال سنگین ہو جائے گی۔

ورلڈ بینک کے مطابق کئی ممالک ادائیگیوں میں ناکامی کے خطرے سے دو چار ہیں۔ ان ممالک میں سری لنکا اور گھانا بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 60 فیصد کم آمدنی والے ممالک کے قرضوں کو نئے قواعد کی روشنی میں مرتب کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

آرتھر سُولیوان (ع ح/ ا ب ا)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں