حالیہ انتخابات میں حصہ لینے والے بائیں بازو کے رہنماؤں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ترقی پسندوں کا کہنا ہے کہ ان کی شکست دراصل شکست نہیں بلکہ ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔
اشتہار
ایک ایسے ملک میں جہاں انفرادی انتخابی اخراجات کی قانونی حد چالیس لاکھ ہو اور اخراجات کا حقیقی تخمینہ کروڑوں روپے تک پہنچتا ہو، وہاں کچھ ایسے انتخابی امیدوار بھی تھے جو محض نظریوں، خوابوں اور ارادوں کے بھروسے پر میدان میں اترے۔ ان میں سے زیادہ تر کو اپنی شکست کا مکمل یقین بھی تھا لیکن وہ اس انتخابی ماحول کو دیرپا نظریاتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ اپنی انتخابی مہموں کے دوران ایسے بیشتر امیدواروں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ وہ اس انتخابی مہم کو عوام کے ساتھ رابطے مضبوط کرنے اور پہلے سے جاری آگاہی کی مہم کا دائرہ بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
ایسے امیدواروں کی اکثریت کے پاس پاکستان کے انتخابی کلچر کے لیے درکار لوازمات میں سے کچھ نہ تھا۔ وہ نہ تو دولت مند تھے کہ بھاری انتخابی اخراجات کر سکتے، سینکڑوں دفاتر کھول سکتے، روزانہ سینکڑوں بریانی کی دیگیں پکوا سکتے، ووٹروں سے لے کر پولنگ ایجنٹوں تک کو معاوضہ ادا کر سکتے، سینکڑوں بلکہ ہزاروں فلیکس بینر چھپوا سکتے یا ٹی وی پر اشتہارات دے سکتے۔ ان امیدواروں کے نظریات کچھ اس نوعیت کے تھے کہ انہیں نہ تو کسی مقامی سرمایہ دار کی پشت پناہی حاصل تھی اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد۔ لیکن یہ امیدوار بڑے بڑے خواب دیکھ رہے تھے جو بادی النظر میں ناقابل عمل دکھائی دیتے تھے۔
تھرپارکر کی ایک ہندو خاتون سنیتا پرمار نے اپنے علاقے کے لوگوں کی زندگیوں پر سے جاگیرداروں اور وڈیروں کی صدیوں سے قائم گرفت کو توڑنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وڈیروں کی گرفت ہی ہے کہ جس کی وجہ سے ان کے لوگ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے اور یوں اس احساس کمتری سے نہیں نکل سکتے جس نے ان کی تمام تر صلاحیتوں کو نگل لیا ہے۔
کس جماعت کو کتنے پاکستانیوں نے ووٹ دیے؟
پاکستان کی قومی اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے تحریک انصاف سب سے نمایاں رہی۔ ملک بھر میں ووٹرز کی تعداد قریب 106 ملین تھی۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس جماعت کو ملک بھر سے کتنے ووٹ ملے۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
1۔ پاکستان تحریک انصاف
قومی اسمبلی میں 116 نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ملک بھر سے 16.8 ملین ووٹرز کا اعتماد حاصل ہوا۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے پی ٹی آئی پنجاب سے 11.1 ملین ووٹوں کے ساتھ پہلے، سندھ سے 1.5 ملین ووٹوں کے ساتھ تیسرے، خیبر پختونخوا سے 2.1 ملین ووٹوں کے ساتھ پہلے جب کہ بلوچستان میں ایک لاکھ نو ہزار ووٹوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہی۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/S. Ahmad
2۔ پاکستان مسلم لیگ نون
پاکستان مسلم لیگ نون قومی اسمبلی کی محض 64 نشستیں حاصل کر پائی لیکن ملک بھر سے 12.9 ملین افراد نے اس جماعت کو ووٹ دیے تھے۔ صوبائی اسمبلیوں میں پی ایم ایل این پنجاب سے 10.5 ملین ووٹوں کے ساتھ دوسرے، سندھ سے 2 لاکھ 37 ہزار ووٹوں کے ساتھ آٹھویں، خیبر پختونخوا سے 6 لاکھ 43 ہزار ووٹوں کے ساتھ پانچویں اور بلوچستان سے قریب 29 ہزار ووٹ حاصل کر کے گیارہویں نمبر پر رہی۔
تصویر: Reuters/M. Raza
3۔ پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان پیپلز پارٹی 6.9 ملین ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہی۔ صوبائی اسمبلیوں میں پی پی پی کو سب سے زیادہ 3.8 ملین ووٹ سندھ میں ملے جہاں اسے صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ یہ جماعت پنجاب میں 1.8 ملین ووٹ حاصل کر کے چوتھے، خیبر پختونخوا میں قریب ساٹھ لاکھ ووٹوں کے ساتھ چھٹے اور بلوچستان میں 57 ہزار ووٹوں کے ساتھ نوویں نمبر پر رہی۔
تصویر: DW/R. Saeed
4۔ آزاد امیدوار
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں درجنوں امیدوار آزاد حیثیت میں بھی کامیاب ہوئے۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کے لیے آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے والوں کو مجموعی طور پر چھ ملین سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
5۔ متحدہ مجلس عمل پاکستان
مذہبی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے ملک بھر سے 2.5 ملین ووٹ حاصل کیے اور اس اعتبار سے چوتھی بڑی سیاسی طاقت ثابت ہوئی۔ صوبائی اسمبلیوں میں ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے ایم ایم اے خیبر پختونخوا میں دوسرے، بلوچستان میں تیسرے، سندھ میں چوتھے اور پنجاب میں چھٹے نمبر پر رہی۔
تصویر: DW/U. Fatima
6۔ تحریک لبیک پاکستان
تحریک لبیک پاکستان سندھ میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں کے علاوہ کوئی اور نشست حاصل نہیں کر پائی تاہم قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اسے ملک بھر سے قریب 2.2 ملین ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی کے لیے ٹی ایل پی کو چار لاکھ ووٹ ملے اور یہ ساتویں نمبر پر رہی۔ پنجاب میں ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے یہ تیسری بڑی سیاسی جماعت ثابت ہوئی جسے 1.8 ملین ووٹ ملے تاہم وہ یہاں سے کوئی ایک نشست بھی نہ جیت پائی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
7۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس
گرینڈ ڈیموکرٹک الائنس صوبہ سندھ میں متحرک تھی اس جماعت کو قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 1.25 ملین ووٹ حاصل ہوئے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدواروں کو 1.5 ملین ووٹ ملے۔
تصویر: DW/U. Fatima
8۔ عوامی نیشنل پارٹی
قومی اسمبلی کے لیے ووٹوں کی تعداد کے حوالے سے اے این پی ساتویں بڑی سیاسی طاقت رہی جسے 8 لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے ووٹ دیے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے 8 لاکھ ووٹ حاصل کر کے اس صوبے میں اے این پی تیسری بڑی سیاسی طاقت ثابت ہوئی۔
تصویر: DW/Faridullah Khan
9۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قومی اسمبلی کی نشستوں کے امیدواروں کو 7 لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدوار 7 لاکھ ستر ہزار ووٹ حاصل کر کے چوتھے نمبر پر رہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
10۔ پاکستان مسلم لیگ
پاکستان مسلم لیگ کے قومی اسمبلی کے امیدوار 5 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر پائے۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پی ایم ایل قریب چار لاکھ ووٹ حاصل کر کے ساتویں نمبر پر رہی۔
تصویر: PR Department of Pakistan Muslim League
11۔ بلوچستان عوامی پارٹی
بلوچستان اسمبلی میں سب سے زیادہ نشتیں حاصل کرنے والی بی اے پی نامی اس جماعت کو صوبائی اسمبلی کے لیے قریب ساڑھے چار لاکھ جب کہ قومی اسمبلی کے لیے 3 لاکھ ستر ہزار سے زائد ووٹ ملے۔
تصویر: Abdul Ghani Kakar
12۔ بلوچستان نیشنل پارٹی
بلوچستان نیشنل پارٹی کے قومی اسمبلی کے لیے امیدوار 2 لاکھ سے زائد ووٹرز کا اعتماد حاصل کر پائے جب کہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو سوا لاکھ سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔
تصویر: DW/A.G. Kakar
13۔ اللہ اکبر تحریک
اللہ اکبر تحریک کو حافظ سعید کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ یہ جماعت قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہ کرپائی تاہم قومی اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدواروں نے ملک بھر سے ایک لاکھ ستر ہزار ووٹ حاصل کیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
13 تصاویر1 | 13
پختون تحفظ موومنٹ کے علی وزیر اور محسن داوڑ نے شورش زدہ قبائلی علاقہ جات کے پسماندہ عوام کے حقوق کا نعرہ لگایا۔ گو ان کی تحریک نے ان کے الیکشن لڑنے کے فیصلے کو پسند نہیں کیا لیکن وہ قبائلی علاقوں کے لوگوں کے سیاسی، سماجی، قانونی اور شہری حقوق کی بازیابی کا نعرہ لگا کر انتخابی سیاست میں اترے۔ انہوں نے بہت واضح طور پر اسٹیبلشمنٹ مخالف نعرہ لگایا اور گمشدہ افراد کی بازیابی کے مطالبہ کو دہرایا۔
اسی طرح کرم ایجنسی سے ایک خاتون علی بیگم نے حلقہ این اے 46 سے انتخابی مہم چلائی اور قبائلی روایات اور ’بوسیدہ طرز سیاست‘ ختم کرنے کا نعرہ لگایا۔ انہوں نے پارہ چنار میں انتخابی دفتر کھولا اور گھر گھر جا کر انتخابی مہم چلائی۔ ان کے حلقے سے 23 مرد امیدوار الیکشن لڑ رہے تھے۔ علی بیگم کو اپنے علاقے کی پہلی خاتون سول سرونٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
جبران ناصر نے ایک ترقی پسند معاشرے کی تعمیر اور انتہا پسندی کی مخالفت کا نعرہ لے کر انتخابی سیاست میں سامنے آئے۔ انتخابات کے فورا بعد انہوں نے اپنی شکست تسلیم کی اور ایک نئی ’ایک عوام تحریک‘ کا اعلان کیا۔ اس تنظیم کے مقاصد میں ’ہر شہری کی زندگی، حقوق اور جائیداد کا تحفظ‘ شامل ہیں اور اس کے علاوہ وہ بنیادی ضروریات، جیسا کہ پانی، بجلی، صحت اور تعلیم کے مساوی حقوق کا نعرہ لگا کر چلے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں جبران ناصر کا کہنا تھا، ’’ان انتخابات نے ایک ایسی سیاست کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے جو تعصب اور خوف سے بالاتر ہو اور ہمیں انہی بنیادوں پر کام کرنا ہے۔ ہمارا سفر اب شروع ہوا ہے اور ہم ملک بھر میں اس تحریک کو مربوط اور منظم کریں گے۔‘‘
معروف گلوکار اور برابری پارٹی کے رہنما جواد احمد نے لاہور کے حلقہ این اے 131 اور 132 سے عمران خان، سعد رفیق اور شہباز شریف کے خلاف الیکشن لڑا۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’لاہور کے ان حلقوں میں کروڑوں روپے انتخابی مہموں پرخرچ کیے گئے۔ ہم نے سب سے زیادہ شکایات فائل کیں اور بے ضابطگیوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو مشکل میں ڈالے رکھا۔ بہرحال ہمیں ان انتخابات سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ ہمیں جیتنے کی توقع نہیں تھی بلکہ ہم اپنی پارٹی اور پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے میدان میں اترے تھے۔ ہماری کامیابی یہ ہے کہ ہم نے بہت مقبولیت حاصل کی ہے۔ عوام میں ہماری پارٹی اور پروگرام کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ہم نے چار یونین کونسلوں میں تنظیم سازی کی ہے اور فوراﹰ بلدیاتی انتخابات کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔ لوگ تو اس بات پر بھی حیران ہیں کہ ہم ان کے پاس الیکشن نے بعد بھی جا رہے ہیں۔‘‘
عوامی ورکرز پارٹی کی عصمت رضا شاہجہان نے اسلام آباد کے حلقہ این اے چون سے الیکشن لڑا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’جاگیردار کو اپنے علاقے اور رعایا کا پکا ووٹ ملتا ہے۔ غریب آدمی مجبور ہے اور مڈل کلاس موقع پرستی کا مظاہرہ کرتی ہے۔‘‘ عصمت کا خیال ہے کہ پاکستان کے ترقی پسند حلقوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں ضرور آنا چاہیے لیکن انہیں اپنا طریقہ کار بدلنا ہو گا۔ ’’ہمیں نئے زاویے سوچنا ہوں گے۔ انتخابی عمل کا معاملہ مختلف ہو چکا ہے۔ ہمیں شہری علاقوں میں مڈل کلاس سے رجوع کرنا ہوگا۔ پاکستان رد جمہوریت سے گزر رہا ہے اور یہاں سویلین جمہوریت قائم کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہمارے لیے ہہت چیلنجز ہیں اور ہمیں اب پرانے طریقے چھوڑنا ہوں گے۔‘‘
دنیا کے کرپٹ ترین ممالک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ’کرپشن پرسپشن انڈیکس 2017‘ میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی کرپشن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرپٹ ترین ممالک پر ایک نظر
تصویر: picture-alliance/U.Baumgarten
1۔ صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
2۔ جنوبی سوڈان
افریقی ملک جنوبی سوڈان بارہ کے اسکور کے ساتھ 179ویں نمبر پر رہا۔ سن 2014 اور 2015 میں جنوبی سوڈان کو پندرہ پوائنٹس دیے گئے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس افریقی ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
3۔ شام
سب سے بدعنوان سمجھے جانے ممالک میں تیسرے نمبر پر شام ہے جسے 14 پوائنٹس ملے۔ سن 2012 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد شام کا اسکور 26 تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
4۔ افغانستان
کئی برسوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان ’کرپشن پرسپشین انڈیکس 2017‘ میں 15 کے اسکور کے ساتھ چوتھا کرپٹ ترین ملک قرار پایا۔ پانچ برس قبل افغانستان آٹھ پوائنٹس کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست تھا۔
تصویر: DW/H. Sirat
5۔ یمن
خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اور ملک یمن بھی 16 کے اسکور کے ساتھ ٹاپ ٹین کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ سن 2012 میں یمن 23 پوائنٹس کے ساتھ نسبتا کم کرپٹ ملک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab
6۔ سوڈان
افریقی ملک سوڈان بھی جنوبی سوڈان کی طرح پہلے دس بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ سوڈان 16 کے اسکور حاصل کر کے یمن کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 175ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Chol
7۔ لیبیا
شمالی افریقی ملک لیبیا 17 پوائنٹس کے ساتھ کُل ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 171ویں نمبر پر رہا۔ سن 2012 میں لیبیا کا اسکور اکیس تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla
8۔ شمالی کوریا
شمالی کوریا کو پہلی مرتبہ اس انڈیکس میں شامل کیا گیا اور یہ ملک بھی سترہ پوائنٹس حاصل کر کے لیبیا کے ساتھ 171ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Maye-E
9۔ گنی بساؤ اور استوائی گنی
وسطی افریقی ممالک گنی بساؤ اور استوائی گنی کو بھی سترہ پوائنٹس دیے گئے اور یہ لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر 171ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
10۔ وینیزویلا
جنوبی امریکی ملک وینیزویلا 18 کے مجموعی اسکور کے ساتھ ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 169ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
بنگلہ دیش، کینیا اور لبنان
جنوبی ایشائی ملک بنگلہ دیش سمیت یہ تمام ممالک اٹھائیس پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ اس عالمی انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.M. Ahad
ایران، یوکرائن اور میانمار
پاکستان کا پڑوسی ملک ایران تیس پوائنٹس حاصل کر کے چار دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر 130ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
پاکستان، مصر، ایکواڈور
پاکستان کو 32 پوائنٹس دیے گئے اور یہ جنوبی ایشیائی ملک مصر اور ایکواڈور کے ساتھ کل 180 ممالک میں میں مشترکہ طور پر 117ویں نمبر پر ہے۔ سن 2012 میں پاکستان کو 27 پوائنٹس دیے گئے تھے۔
تصویر: Creative Commons
بھارت اور ترکی
بھارت، ترکی، گھانا اور مراکش چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ مشترکہ طور پر 81ویں نمبر پر ہیں۔