1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترقی کرتا ایشیا، لیکن پھر مشکلات کیا ہیں؟

6 اپریل 2024

قرضے، تجارتی رکاوٹیں اور غیر یقینی صورتحال۔ کیا ایشیائی معیشتیں سن دو ہزار چوبیس میں بھی مشکلات کا شکار رہیں گی؟

China | Chatbot Wantalk mit künstlicher Intelligenz
تصویر: Jade Gao/AFP

ایشیائی معیشتیں اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہیں جتنی وہ کر سکتی ہیں۔ اس سال خطے میں ترقی کی شرح 4.5 فیصد تک سست ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں یہ شرح 5.1 فیصد رہی تھی۔

قرضوں، تجارتی رکاوٹوں اور پالیسی کی غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے مجموعی طور پر ایشیائی ممالک میں معیشتیں سست روی کا شکار ہو رہی ہیں۔

ایسے میں حکومتوں کو اس صورت حال سے سے نمٹنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ طویل المدتی مسائل کا حل یقینی بنانا ہو گا جیسا کہ سماجی تحفظ کے کمزور نظاموں میں بہتری اور تعلیم میں سرمایہ کاری میں اضافہ۔

ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ایشیا کی معیشتیں کووڈ انیس سے پہلے کے مقابلے میں سست رفتاری سے ترقی کر رہی ہیں لیکن یہ رفتار دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں تیز ہی ہے۔ 

سن 2023 میں اشیاء اور خدمات کی تجارت میں صرف 0.2 فیصد اضافہ ہوا لیکن رواں سال 2.3 فیصد اضافے اور مالی حالات میں بہتری کا امکان ہے۔ چین جیسے ملک میں مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی سے کمزور شرح نمو میں بہتری میں مدد ملے گی۔

بھارت اور چین: ہمسائے، حریف اور تجارتی پارٹنرز

15:31

This browser does not support the video element.

مشرقی ایشیا کے لیے عالمی بینک کے چیف اکانومسٹ آدتیہ مٹو کے بقول یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کی ایشیا بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایک آن لائن بریفنگ میں انہوں نے مزید کہا کہ اس صورت حال میں بھی بڑی کمپنیاں اپنا کردار زیادہ مؤثر انداز میں نہیں نبھا رہیں۔

ورلڈ بینک کی اس رپورٹ میں اس خطرے کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکی فیڈرل ریزرو بینک اور دیگر اہم مرکزی بینک وبائی امراض سے پہلے کے مقابلے میں شرح سود کو زیادہ رکھ سکتے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر پالیسیاں بڑی صنعتی معیشتوں نے ہی طے کرنا ہیں، جیسا کہ امریکہ، چین اور بھارت۔

چین میں حکمران کمیونسٹ پارٹی نے اس حوالے سے باضابطہ ہدف مقرر کر دیا ہے۔ اس سال چینی معیشت میں پانچ فیصد کی شح سے ترقی ہو گی، جو پچھلے سال کی 5.2 فیصد شرح نمو سے کچھ کم ہے۔

ادھر ورلڈ بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ چین میں شرح نمو 4.5 فیصد تک سست ہو سکتی ہے۔

مٹو کا کہنا ہے کہ بیجنگ کو اب بھی اپنی معیشت کے ماڈل کو تبدیل کرنے میں وقت لگے گا۔ ان کے بقول رئیل اسٹیٹ پر انحصار کم کرنا اور شرح نمو کے لیے دیگر کاروباروں پر سرمایہ کاری اور توجہ بڑھانا ایک چیلنج ہو گا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیا ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری اور اس میں ترقی کے حوالے سے اب بھی مغربی ممالک سے کہیں پیچھے ہے۔ ایشیا کی ترقی کی رفتار کو یقینی اور تیز بنانے کے حوالے سے اسے سب سے بڑی خرابی قرار دیا گیا ہے۔

مقامی سطح سرمایہ کاری پر پابندیاں عائد کرنے پر حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومتیں غیر ملکی کمپنیوں کو اہم علاقوں میں داخل ہونے سے روک رہی ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق مسابقتی قوانین پر عمل درآمد اور تعلیم میں زیادہ سرمایہ کاری سے براعظم ایشیا کی ترقی زیادہ تیزی سے ممکن ہو سکتی ہے۔

ع ب / م م (اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں