ترقی یافتہ لیکن روایت پسند جاپان میں دھماکا خیز عدالتی فیصلہ
17 مارچ 2021
ترقی یافتہ لیکن بہت روایت پسند جاپان میں ایک دھماکا خیز عدالتی فیصلہ حکومت اور معاشرے دونوں کے لیے دھچکے کی وجہ بن گیا ہے۔ عدالت کے مطابق ہم جنس پرست جاپانی شہریوں کی آپس میں شادیوں پر پابندی ملکی آئین کے منافی ہے۔
اشتہار
جاپان صنعتی طور پر دنیا کے ان سات ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے، جنہیں مشترکہ طور پر جی سیون کہا جاتا ہے۔ لیکن جاپان جی سیون کا وہ واحد رکن ملک ہے، جہاں ہم جنس پرست افراد کی آپس میں شادیوں یا پارٹنرشپ کو قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔
ٹوکیو سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ساپورو کی ڈسٹرکٹ کورٹ نے آج بدھ سترہ مارچ کے روز ایک مقدمے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متعدد درخواست دہندگان کی یہ درخواست تو مسترد کر دی کہ حکومت انہیں زر تلافی ادا کرے۔ تاہم ساتھ ہی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ 'چڑھتے ہوئے سورج کی سرزمین‘ کہلانے والے اس ملک میں ایک ہی صنف سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی شادیوں پر عائد قانونی پابندی غیر آئینی ہے۔
ہم جنس پرست شہریوں کی بڑی کامیابی
یہ عدالتی فیصلہ مشرق بعید کی اس قدامت پسند بادشاہت میں ہم جنس پرست افراد کے لیے مساوی سماجی اور قانونی حقوق کی جدوجہد میں ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ اس عدالتی فیصلے کا اثر ملک میں زیر سماعت ایسے ہی کئی دیگر مقدمات پر بھی پڑے گا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق کسی انسان کے جنسی رجحانات بھی اس کی نسل یا صنف کی طرح کوئی ایسی بات نہیں ہوتے، جس کا اس نے اپنے لیے ذاتی ترجیحی بنیادوں پر انتخاب کیا ہو۔ اس لیے ہم جنس پرست افراد کی آپس میں شادیوں کو قانوناﹰ تسلیم نا کرنے اور انہیں دیگر روایتی شادی شدہ جوڑوں کی طرح سماجی یا مالی مراعات سے محروم رکھنا ملکی آئین کے منافی ہے۔
اشتہار
جاپانی آئین کا آرٹیکل نمبر چودہ
عدالتی فیصلے کی دستاویز کے مطابق، ''شادی کی صورت میں ملنے والی قانونی سہولیات اور مراعات ہم جنس پرست جوڑوں کو بھی اسی طرح ملنا چاہییں، جس طرح وہ مردوں اور عورتوں پر مشتمل روایتی شادی شدہ جوڑوں کو ملتی ہیں۔‘‘
اپنے اس فیصلے کی وجہ بیان کرتے ہوئے جج توموکو تاکےبے نے کہا کہ ہم جنس پرست افراد کو آپس میں شادیاں کرنے کی قانونی اجازت نا دینا یا ایسی شادیوں کو قانوناﹰ تسلیم نا کرنا ملکی آئین کی شق نمبر چودہ کی نفی کرتا ہے۔ جاپانی آئین کے اس آرٹیکل کی رو سے کسی بھی شہری کے ساتھ اس کی 'نسل، رنگت، صنف، سماجی حیثیت یا خاندانی پس منظر‘ کی بنیاد پر امتیازی برتاؤ نہیں کیا جا سکتا۔
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں ہم جنس پسند قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اب تک کن ممالک میں ہم جنس پسندوں کی شادیوں کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Yeh
ہالینڈ، سن دو ہزار ایک
ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت دی گئی۔ ڈچ پارلیمان نے اس تناظر میں سن دو ہزار میں ایک قانون کی منظوری دی تھی۔ یکم اپریل سن دو ہزار ایک کو دنیا میں پہلی مرتبہ دو مردوں کے مابین شادی کی قانونی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ شادی تھی اس وقت ایمسٹرڈیم کے میئر جاب کوہن کی۔ اب ہالینڈ میں ہم جنس جوڑے بچوں کو بھی گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/M. Antonisse
بیلجیم، سن دو ہزار تین
ہالینڈ کا ہمسایہ ملک بیلجیم دنیا کا دوسرا ملک تھا، جہاں پارلیمان نے ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی اجازت دی گئی۔ سن دو ہزار تین میں ملکی پارلیمان نے قانون منظور کیا کہ خواتین یا مرد اگر آپس میں شادی کرتے ہیں تو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے، جو شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تین برس بعد ہم جنس جوڑوں کو بچے گود لینے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Warnand
ارجنٹائن، سن دو ہزار دس
ارجنٹائن لاطینی امریکا کا پہلا جبکہ عالمی سطح پر دسواں ملک تھا، جہاں ہم جنسوں کے مابین شادی کو ریاستی تحفظ فراہم کیا گیا۔ جولائی سن دو ہزار دس میں ملکی سینیٹ میں یہ قانون 33 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا جبکہ 27 ووٹ اس کے خلاف دیے گئے۔ اسی برس پرتگال اور آئس لینڈ نے بھی ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی بنانے کے حوالے سے قوانین منظور کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/L. La Valle
ڈنمارک، سن دو ہزار بارہ
ڈنمارک کی پارلیمان نے جون سن دو ہزار بارہ میں بڑی اکثریت کے ساتھ ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی۔ اسکینڈے نیویا کا یہ چھوٹا سا ملک سن 1989 میں اس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب وہاں ہم جنس جوڑوں کو سول پارٹنرشپ کے حقوق دیے گئے تھے۔ ڈنمارک میں سن دو ہزار نو سے ہم جنس پسندوں کو اجازت ہے کہ وہ بچے گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/H. Lundquist
نیوزی لینڈ، سن دو ہزار تیرہ
نیوزی لینڈ میں ہم جنس پسند مردوں اور خواتین کو شادی کی اجازت سن دو ہزار تیرہ میں ملی۔ یہ ایشیا پیسفک کا پہلا جبکہ دنیا کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کو شادی کی اجازت دی گئی۔ نیوزی لینڈ میں انیس اگست کو ہم جنس پسند خواتین لینلی بنڈال اور ایلی وانیک کی شادی ہوئی۔ فرانس نے بھی سن دو ہزار تیرہ میں ہم جنس پسندوں کو شادی کی قانونی اجازت دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Air New Zealand
آئر لینڈ، سن دو ہزار پندرہ
آئرلینڈ ایسا پہلا ملک ہے، جہاں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت کا قانون منظور ہوا۔ اس ریفرنڈم میں دو تہائی سے زائد اکثریت نے ہم جنسوں کے مابین شادی کی حمایت کی تو تب ہزاروں افراد نے دارالحکومت ڈبلن کی سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Crawley
امریکا، سن دو ہزار پندرہ
امریکا میں چھبیس جون سن دو ہزار پندرہ کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا کہ ملکی آئین ہم جنسوں کی مابین شادیوں کی قانونی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی فیصلے کی بدولت امریکا بھر میں ہم جنس جوڑوں کے مابین شادی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سے قبل بارہ برس تک امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پسند افراد کے مابین شادی کو غیر آئینی قرار دیے رکھا تھا۔
جرمنی یورپ کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی گئی۔ تیس جون کو بنڈس ٹاگ میں 226 کے مقابلے میں یہ قانون 393 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ اگرچہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس قانون کے خلاف ووٹ دیا تاہم انہوں نے اس کے منظور کیے جانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/O. Messinger
آسٹریلیا، سن دو ہزار سترہ۔ اٹھارہ
آسٹریلوی میں ایک پوسٹل سروے کرایا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس ملک کی اکثریت ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی حمایت کرتی ہے تو ملکی پارلیمان نے دسمبر 2017 میں اس سلسلے میں ایک قانون منظور کر لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Hamilton
تائیوان، سن دو ہزار انیس
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک ہے، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ سترہ مئی سن دو ہزار سترہ کو ملکی پارلیمان نے اس حوالے سے ایک تاریخی مسودہ قانون منظور کیا۔ اس قانون کی منظوری پر صدر نے کہا کہ ’حقیقی برابری کی طرف یہ ایک بڑا قدم ہے‘۔
تصویر: dapd
10 تصاویر1 | 10
شادی کی اب تک مروجہ قانونی تعریف
سماجی حوالے سے بھی جاپان میں مروجہ عائلی قانون کے تحت کوئی بھی شادی 'دونوں اصناف سے تعلق رکھنے والے افراد کی باہمی رضامندی کی بنیاد‘ پر ہی کی جا سکتی ہے۔ اس کا قانونی ماہرین مطلب یہ نکالتے ہیں کہ دونوں اصناف سے مراد باہم مخالف اصناف ہیں، یعنی کوئی بھی قانونی شادی صرف کسی مرد اور عورت کے مابین ہی ہو سکتی ہے۔
ٹوکیو سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق آج کے عدالتی فیصلے کا مطلب یہ نہیں کہ اب حکومت کو اس حوالے سے اپنی پالیسی فوری طور پر بدلنا ہو گی۔ اس فیصلے کا تاہم یہ مطلب ضرور ہے کہ اب حکومت پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ مستقبل میں ملکی قوانین میں ایسی ترامیم کرے، جن کے بعد ہم جنس پسند افراد بھی آپس میں قانونی شادیاں کر سکیں۔
جاپان میں اسی طرح کے مقدمات ٹوکیو، اوساکا، ناگویا اور فوکواوکا کی مختلف عدالتوں میں بھی زیر التوا ہیں، جن پر ساپورو کی عدالت کا فیصلہ اثر انداز ہو سکتا ہے۔
م م / ش ح (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)
ایشیا میں ’ایل جی بی ٹی‘ کی مساوی حقوق کی جنگ
گذشتہ چند سالوں میں جہاں ایک طرف ایشیائی ممالک میں ایل جی بی ٹی افراد کے حقوق کی صورتحال بہتر ہوئی ہے وہیں ہم جنس پرستوں کو اب بھی وسیع امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
بھارتی قوس قزح تحریک
ستمبر 2018 ء میں ایل جی بی ٹی افراد کے لیے رنگین پرچم لہرائے گئے۔یہ وہی وقت تھا جب بھارتی سپریم کورٹ نے سیکشن 377 کے تحت ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت تو دے دی لیکن ہم جنس پرستوں کی شادیوں نے کا معاملہ ابھی بھی دور کی بات ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Nath
مخنث ملکہ حسن
سن 2019 میں تھائی لینڈ میں ٹرانسجنڈرز کا ایک مقابلہ حُسن منعقد کیا گیا جس میں ایک مخنث ملکہ حسن مقابلہ جیت گئیں۔ تھائی لینڈ میں رواں برس ہونے والے پارلمیانی انتخابات میں ایک مخنث امیداور کے حصہ لینے کی وجہ سے یہ موضوع سیاسی سطح پر بھی زیادہ توجہ حاصل کرتا جا رہا ہے۔ تھائی لینڈ میں ہم جنس پرست ابھی بھی قانونی طور پر شادی نہیں کر سکتے۔
تصویر: Reuters/J. Silva
تائیوان کے پر امید ہم جنس پرست
تائیوان کے ہم جنس پرست سن 2018 میں خاصے پر امید تھے کہ انہیں شادی کی قانونی اجازت مل جائے گی مگر، ان کی امیدیں مٹی میں مل گئیں جب تائیوانی ووٹرز نے ریفرینڈم کے ذریعے اسے نامنظور کر دیا۔
تصویر: Reuters/A. Wang
انڈونیشیا کے ہم جنس پرست
ہم جنس پرستوں اور ٹرانسجینڈر افراد کو انڈونیشیا میں اپنے جنسی رجحان کو چھپانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔اس معاشرے میں ہم جنس پرستی کے خلاف گہرا تعصب پایا جاتا ہے۔یہاں ایل بی جی ٹی کے خلاف مظاہرے اکثر ہوتے ہیں. ایل بی جی ٹی حقوق کی حمایت کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں نفرت اور انتہا پسندی کا شکار ہیں۔
ملائیشیائی وزیر کی جانب سےایل بی جی ٹی کمیونٹی نامنظور
ملائیشیا کے سیاحتی وزیر محمد الدین کیٹاپی سے ایک صحافی نے سوال پوچھا کہ،کیا آنے والے سیاحتی میلے ہم جنس پرستوں کو خوش آمدید کہا جائے گا؟ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ،’’مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا ملک اس کی حمایت میں ہے۔‘‘ جبکہ دیگر وزراء نے بھی حقارت آمیز جوابات دئیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
آزادی کے انمول لمحات
سنگاپور میں اوپن ایئر میں منعقد ہونے والی گے پریڈ کے شرکاء پوری طرح سے اس ایوونٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔اگرچہ سنگا پور بہت سے اعتبار سے بہت ترقی پسند ہے تاہم یہ جزیرہ نما سٹی اسٹیٹ جنسی معاملات میں نہایت قدامت پسند ہے۔ یہاں ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے انسانوں کا ایک دوسرے سے رشتہ ہونا نہ صرف جرمانے کی وجہ سے مہنگا پڑ تا ہے بلکہ کبھی کبھی تو یہ جیل تک پہنچا دینے کا سبب بن جاتا ہے۔