1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترقی یافتہ ملکوں میں بیشترعوام چین سے نالاں: سروے

7 اکتوبر 2020

چودہ ملکوں میں کرائے گئے ایک تازہ ترین سروے کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران امریکا اور دیگر ترقی یافتہ معیشتوں میں چین کے تئیں عوامی ناپسندیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

Indien Himalaya-Konflikt | Poster China Präsident Xi Jinping zerrissen
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Solanki

یہ سروے کورونا وائرس کی وبا کے پس منظر میں ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ عہدہ صدارت پر فائز ہونے کے لیے انتخابی میدان میں ہیں اور چین ان کی خارجہ پالیسی کا اہم موضوع ہے اور وہ اس عالمگیر وبا کے لیے چین کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔

امریکا سے کام کرنے والے ادارے پیو ریسرچ سینٹرکے مطابق اس نے 10جون سے 3 اگست کے درمیان 14 ترقی یافتہ ملکوں میں چین سے متعلق ایک سروے کرایا۔  اس سروے میں 14276 بالغ افراد نے حصہ لیا اور ان کی اکثریت نے مختلف امور میں چین کے رویے کے تئیں ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

ناپسندیدگی

پیو کی طرف سے ایک عشرے سے زیادہ عرصے قبل شروع کیے گئے اس طرح کے سروے کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے جب آسٹریلیا، برطانیہ، جرمنی، نیدرلینڈ، سویڈن، امریکا، جنوبی کوریا، اسپین اور کینیڈا میں لوگوں نے چین کے تئیں اب تک سب سے زیادہ منفی خیالات کا اظہار کیا۔

پیو رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے حوالے سے چین کے رویے کے بارے میں 61  فیصد لوگوں کی رائے تھی کہ چین نے اس وبا کو خراب طریقے سے نمٹنے کی کوشش کی تاہم 37 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ چین نے اچھا کام کیا ہے۔

دوسری طرف سروے میں شامل 84 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے سلسلے میں امریکا کا رول چین سے بھی خراب رہا۔

یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکا میں تین نومبر کو صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ عہدہ صدارت پر فائز ہونے کے لیے انتخابی میدان میں ہیں۔  چین ان کی خارجہ پالیسی کا اہم موضوع ہے اور وہ اس عالمگیر وبا کے لیے چین کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔

پیوکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے میں بیجنگ کے رویے کا اثر چین کے متعلق لوگوں کے عمومی نظریے پر بھی پڑا ہے۔  جن لوگوں کا خیال ہے کہ اس وبا سے نمٹنے میں چین کا رویہ خراب رہا ہے وہ ملک کے مختلف معاملات کے حوالے سے بھی چین کو  ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اس کا اطلاق چین کے صدر شی جن پنگ کی عوامی مقبولیت پر بھی ہوتا ہے۔ 14ملکوں میں مجموعی طور پر 78  فیصد عوام کا کہنا تھا کہ ”انہیں اب اس بات پر اعتماد نہیں رہ گیا ہے کہ صدر شی جن پنگ بین الاقوامی امور کے حوالے سے کوئی اچھا فیصلہ کرسکتے ہیں۔"

حتی کہ جن لوگوں نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے سلسلے میں چین کے رویے کی تائید کی ہے ان میں سے بھی دس میں سے صرف چار لوگوں نے ہی شی جن پنگ پر اعتماد کا اظہار کیا۔

شی جن پنگ، ٹرمپ سے آگے

پیو کے سروے میں تاہم یہ دلچسپ بات بھی سامنے آئی کہ شی جن پنگ کے تئیں بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کے باوجود بیشتر ملکوں میں لوگوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے چینی صدر پر زیادہ بھروسے کا اظہار کیا۔  جرمنی میں 78 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں شی جن پنگ پر اعتماد نہیں ہے لیکن 89 فیصد لوگوں نے یہی رائے ٹرمپ کے بارے میں دی۔

جہاں تک اقتصادی طاقت کا سوال ہے تو بیشتر ملکوں کے لوگوں نے چین کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔  صرف امریکا، جاپان اور جنوبی کوریا کے زیادہ لوگوں کا خیال تھا کہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے۔

یہ سروے جن ممالک میں کرائے گئے ان میں آسٹریلیا، بیلجیئم، برطانیہ، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، نیدرلینڈ، جنوبی کوریا، اسپین، سویڈن اور امریکا شامل تھے۔

ج ا/ ص ز   (روئٹرز)

پاکستانی لڑکیاں چین کیسے اسمگل کی جاتی ہیں؟

03:08

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں