جرمن صوبے سیکسینی انہالٹ میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی کے سربراہ پوگینبرگ پارٹی صدارت سے مستعفی ہو گئے ہیں۔
اشتہار
انہیں کچھ ایام قبل جرمنی میں آباد ترک نسل باشندوں کو ’اونٹوں کا ریوڑ چرانے والے‘ اور ’زیرہ فروش‘ کہنے پر شدید تنقید کا سامنا تھا۔ پوگینبرگ سیکسنی انہالٹ میں اپنی جماعت کے چیرمین کے عہدے پر فائز تھے۔
برلن میں دنیا بھر کی ثقافتوں کا رنگا رنگ کارنیوال
جرمن دارالحکومت برلن میں ثقافتوں کا کارنیوال منائے جانے کی روایت ٹھیک بیس برس قبل 1996ء میں شروع ہوئی تھی۔ تب منتظمین اور شرکاء کا مقصد نسل پرستی کے خلاف مارچ کرنا تھا۔ آج کل اس میں رواداری کا علم بلند کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
ثقافت کی حدود لامحدود
برلن میں تقریباً دو سو مختلف ممالک سے آئے ہوئے شہری بستے ہیں۔ اس تصویر میں زامبا رقص کا مظاہرہ کرنے والی برازیل کی ایک فنکارہ کو ترکی کی روایتی ٹوپی پہنے ایک بزرگ کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے اور اس طرح کے ہنگامہ خیز مناظر اسی کارنیوال میں نظر آ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
اس کارنیوال میں رنگ و نسل کی تمام حدود ختم ہو جاتی ہیں اور لوگ کسی قسم کے خوف کےبغیر مل جُل کر رقص و موسیقی کے ہنگامے میں ڈوب جاتے ہیں۔ ثقافتوں کے اس کارنیوال میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کثیرالثقافتی معاشرے میں لوگ کس طرح رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مل جُل کر رہا کریں گے۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
اژدہے اور خواتین
برلن میں تیس ہزار چینی بستے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے برلن کی روزمرہ زندگی پر ان چینیوں کی بھی گہری چھاپ ہے۔ ثقافتوں کے کارنیوال میں چینی شہری بھی اپنے مخصوص انداز میں حصہ لیتے ہیں، جیسے کہ یہ چینی خواتین اژدہوں کے ساتھ ایک مخصوص چینی رقص پیش کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
مقامی اور عالمی رنگ ساتھ ساتھ
اس تصویر میں رقص کرنے والا شخص، جس نے پروں والا ہَیٹ پہن رکھا ہے، کسی بہت ہی دور کی اجنبی دنیا کا باسی معلوم ہوتا ہے۔ درحقیقت وہ دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک کے باسیوں کے سامنے اپنی مخصوص ثقافتی روایات پیش کر رہا ہے۔ یہ رقاص اس حقیقت کا عکاس ہے کہ مقامی روایات وقت کے ساتھ ساتھ عالمی روایات کا حصہ بن چکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
جنوں کے عالم میں
جلوس کے سبھی شرکاء گاتے بجاتے ہیں، مقصد ہوتا ہے خوب شور اور ہنگامہ کرنا۔ اس کارنیوال کی ایک پختہ روایت اس طرح کے کاغذی بِگل یا سِیٹیاں ہیں، جنہیں زور زور سے بجایا جاتا ہے۔ ان کا شور اس جلوس میں بولے جانے والے الفاظ پر غالب آ جاتا ہے اور ابلاغ کا بنیادی ذریعہ بن جاتا ہے۔ چند لمحوں کے لیے الفاظ پسپائی اختیار کر لیتے ہیں۔ ویسے بھی کارنیوال میں الفاظ کے بغیر بھی لوگ ایک دوسرے کی بات سمجھ لیا کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
گرمی بھی، خوبصورتی بھی
المونیم کی چادریں عموماً کسی حادثے کے متاثرین کو دی جاتی ہیں، مثلاً جب بحیرہٴ روم میں کشتیوں کے ذریعے آنے والے مہاجرین کو بچایا جاتا ہے تو اُنہیں سردی سے بچنے کے لیے اسی طرح کی چادریں دی جاتی ہیں۔ آیا ان رقاصاؤں نے یہ چادریں سردی سے بچنے کے لیے اوڑھ رکھی ہیں یا محض خوبصورت نظر آنے کے لیے ، یہ بات واضح نہیں ہے لیکن کیا فرق پڑتا ہے، کارنیوال کے ہنگامے میں اس طرح کی باتوں پر کوئی کم ہی غور کرتا ہے۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
رقص ہو گا، موسم چاہے جیسا بھی ہو
یورپ میں عام طور پر کارنیوال سردیوں ہی میں آتا ہے۔ اس بار ثقافتوں کے کارنیوال کے دوران بھی موسم سرد ہی تھا لیکن یہ رقاصہ سرد موسم سے بھی گھبرائی نہیں۔ اُس نے پلاسٹک کی ایک شِیٹ سے اپنا جسم ڈھانپ رکھا ہے۔ آیا وہ اس طرح اپنی کم لباسی کو چھپُانا چاہتی ہے یا نمایاں کرنا چاہتی ہے، یہ فیصلہ دیکھنے والی نظر پر ہے۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
کھانے میں بھی اپنی مخصوص روایت
ثقافتوں کے کارنیوال میں شریک یہ چینی شہری اپنے مخصوص انداز میں اسٹکس کی مدد سے کھا رہے ہیں۔ اس طرح دو اسٹکس کی مدد سے کھانا کھانا کم از کم یورپ کے شہریوں کے لیے تو ہرگز آسان نہیں ہے لیکن چینیوں کے لیے اس طرح سے کھانا کوئی مشکل کام نہیں ہے، خواہ انہوں نے مخصوص ملبوسات پہن رکھے ہوں اور خواہ انہیں کھڑے کھڑے کھانا پڑ رہا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
ٹانگ اوپر !
رنگا رنگ ملبوسات پہنے یہ نوجوان بھی اپنے مخصوص انداز میں اعضاء کی شاعری کرتا اس جلوس میں شریک ہے۔ اس طرح سے ٹانگ اوپر اٹھانا رقص کا بھی کوئی انداز ہو سکتا ہے اور ورزش کا بھی اور یہ کسی فوجی پریڈ کی نقل بھی ہو سکتی ہے۔ اس کارنیوال کے شرکاء کا بنیادی مقصد کھیلنا کُودنا اور تفریح حاصل کرنا ہے، دیکھنے والے چاہے جو مرضی سمجھیں۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
افریقی رنگ اور ڈھول کی تھاپ
پیلا، سبز اور سرخ، افریقی اتحاد کے علامتی رنگ۔ افریقہ کے مختلف خطّوں سے آئے ہوئے ان شہریوں کو بھی یہاں ایک دوسرے سے ملنے کا موقع ملتا ہے اور یوں نئے روابط جنم لیتے ہیں۔ برلن دنیا کے ہر خطّے کے باسیوں کو امن کے ساتھ مل جُل کر رہنے کے مواقع مہیا کرتا ہے، چاہے کچھ دیر کے لیے ہی سہی۔
پوگینبرگ نے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فروری میں اپنی تقریر میں غیرمناسب الفاظ کا استعمال کیا تھا۔ اپنے حامیوں سے خطاب کے دوران ترکوں نسل شہریوں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ’اونٹ چرانے والے‘ ہیں اور ان کے لیے جرمنی میں ’نہ جگہ ہے اور نہ اہمیت۔‘‘
پوگینبرگ نے کہا کہ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھے کہ انہیں میڈیا کی جانب سے اس حد تک دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ’’مجھے اس کا خمیازہ بھگتنا ہو گا۔‘‘
مرکزی جرمن شہر ماگدےبرگ میں پارلیمانی سیشن میں اپنی تقریر میں استعفے کا اعلان کیا۔ جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق صوبائی پارلیمان کے گروپ میں خود پوگینبرگ کی اپنی جماعت کے لوگوں نے ایک خفیہ ووٹنگ میں ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ تاہم پوگینبرگ نے کہا کہ وہ پارٹی صدارت سے مستعفی ہو جانے کے باوجود پارلیمانی گروپ کے ساتھ کام کرتے رہیں گے۔
افریقہ کے بھورے شہری ’البینو‘، خود کو چھپانے کی ضرورت نہیں
افریقہ میں بھورے افراد یعنی البینوز کو ستایا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ان سے رابطے کو پسند نہیں کیا جاتا۔ ان میں سے چند افراد نے اس نفرت کے خلاف کچھ کرنے کی ٹھانی ہے۔ ڈی ڈبلیو کی افریقہ کے کچھ البینوز سے ملاقات۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Chiba
گورا رنگ خوبصورتی کی علامت
تھنڈو ہوپا کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے اور اس کی عمر بیس اور تیس برس کے درمیان ہے۔ وہ پیدا ہوئی تو اسے ہر وقت اپنی جلد کو دھوپ سے بچانے کے لیے کریم لگانا پڑتی تھی، اپنے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنا پڑتا تھا اور یوں وہ ایک احساس کمتری کے ساتھ پروان چڑھی۔ وہ ہمیشہ سائے کی تلاش میں رہتی تھی تاہم اب ہوپا اپنے جیسے لوگوں کے حقوق کے لیےسرگرم ہے۔ وہ ایک ماڈل بھی بن چکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Guercia
احساس کمتری کے خلاف ’کیٹ واک‘
جنوبی افریقہ کے ایک ڈیزائنر گیئرٹ یوہان کوئٹزے نے چار سال قبل تھنڈو ہوپا کو ایک طرح سے دریافت کیا تھا۔ آج کل وہ اپنے ملک کی معروف ترین ماڈلز میں سے ایک ہے۔ وہ 2013ء میں فوربز لائف افریقہ نامی فیشن میگزین کے سر ورق پر بھی موجود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Guercia
توہم پرستی کی انتہا
افریقہ میں جرائم پیشہ افراد ایک طرح سے البینو شہریوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ انہیں اغوا کیا جاتا ہے اور قتل کر کے ان کے اعضاء عاملوں کو فروخت کر دیے جاتے ہیں، جو انہیں جادو ٹونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایک البینو کی قیمت ساٹھ ہزار یورو تک ہوتی ہے۔ ان کی صرف ایک ٹانگ ہی دو ہزارو یورو تک میں فروخت ہوتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Karumba
خوف میں زندگی
ڈوروتھی ماؤسین کا تعلق ملاوی کے مشنگا صوبے سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے خود کو کبھی بھی محفوظ تصور نہیں کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس جنوب مشرقی افریقی ریاست میں دس ہزار کے لگ بھگ البینو رہتے ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ کو گزشتہ برس قتل کیا گیا۔ ملاوی کی پولیس کے مطابق البینو شہریوں پر ایک سال میں ساٹھ سے زائد حملے رپورٹ کیے گئے تاہم اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Guercia
چوبیس گھنٹے تحفظ
رازق جفالی کی نظر ہر وقت اپنے بیٹے پر رہتی ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ ان کے تین سالہ بیٹے قاسم کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ اس مقصد کے لیے انہیں اپنی ملازمت کی قربانی دینا پڑی۔ ملاوی کے شہری اپنی رحم دلی اور امن پسندی کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ البینو شہریوں پر حملوں کے تناظر میں ملاوی کے صدر پیٹر موتھاریکا کا کہنا ہے کہ انہیں اس ظلم پر شرم آتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Mukwazhi
منڈیلا کے لیے گیت
سلیف کیٹا افریقی پوپ میوزک کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ وہ مالی میں پیدا ہوئے اور انہیں اس بات کا بہت اچھی طرح اندازہ ہے کہ افریقہ میں ایک البینو پر کیا گزرتی ہے۔ وہ 1984ء میں پیرس میں آ بسے تھے۔ انہیں اس وقت پذیرائی حاصل ہوئی، جب انہوں نے نیلسن منڈیلا کی سترویں سالگرہ پر لندن کے ویمبلے اسٹیڈیم میں ان کے لیے گیت پیش کیا تھا۔
تصویر: Imago/CHROMORANGE
البینو ہونا فخر کی بات
2015ء میں عوامی جمہوریہ کانگو میں ’’پراؤڈ ٹو بی البینو‘‘ یعنی ’’البینو ہونے پر فخر‘‘ کے نام سے ایک میلہ منقعد ہوا، جسے ایک انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔ اس تین روزہ میلے میں مختلف البینوز نے اپنے تجربات سے دوسروں کو آگاہ کیا۔ اس میلے کا مقصد البینو کے بارے میں رائج گھسے پٹے خیالات کو غلط ثابت کرنا اور ان کے اعتماد میں اضافہ کرنا تھا۔ اس سلسلے میں ٹویٹر پر البینوز کا ہیش ٹیگ ہے #AlbinismIsJustAColor.
تصویر: DW/S. Mwanamilongo
معاملہ صرف رنگت کا نہیں
البینوزم یا بھورے پن کا تعلق صرف جلد کی رنگت سے نہیں ہوتا۔ ایسےافراد کی جلد میں اسودین صباغ یعنی Melanin Pigment کی بھی کمی ہوتی ہے۔ یہ پگمنٹ جسم کو سورج کی شعاعوں سے تحفظ دیتا ہے۔ اس کمی کے باعث البینوز کو خطرناک حد تک جلد کا سرطان ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کی نظر بھی کمزور ہوتی ہے۔ البینوز کے لیے دھوپ سے بچنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Chiba
نفرت کے خلاف فٹ بال
سعید سیریمانی اور ان کی ٹیم ’البینو یونائیٹڈ‘ فٹ بال کی تربیتی مشق تب شروع کرتے ہیں، جب تنزانیہ کے دارالحکومت دارالسلام سے سورج غائب ہونا شروع ہوتا ہے۔ ان کے پاس جگہ بہت کم ہے لیکن ان کے خواب بہت بڑے ہیں۔ اس ٹیم کے کھلاڑی بین الاقوامی شہرت یافتہ فٹ بالر بننا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان میں ایک اچھا فٹ بالر بننے کے تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Chiba
9 تصاویر1 | 9
اس سے قبل جرمن صوبے سیکسنی انہالٹ میں سیاسی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی کے سربراہ پوگینبرگ کی جانب ترک نسل کے باشندوں کے بارے میں ان الفاظ کو ’نسل پرستانہ‘ قرار دیتے ہوئے، جرمنی میں ترک برادری کی تنظیم کے سربراہ گوکے سوفواولو نے کہا تھا، ’’اس رہنما کی جانب سے ایسے نسل پرستانہ اور امتیازی الفاظ پر کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کی گئی۔‘‘
چند روز قبل جرمن اخبار اشٹٹ گارٹر سائٹنگ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں سوفواولو نے کہا کہ ترک برادری اس تناظر میں باقاعدہ شکایت درج کرانے پر غور کر رہی ہے۔
تاہم گزشتہ برس عام انتخابات میں وفاقی پارلیمان میں اپنی جگہ بنانے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی نے اس منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے۔ مہاجرین کے بحران کے تناظر میں اس جماعت نے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ نشستیں حاصل کیں اور اب یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن چکی ہے۔