ترک حکام نے جوابی اقدام کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی دوگنا کر دی ہے۔ ان مصنوعات میں امریکی کاریں، تمباکو اور الکوحل وغیرہ شامل ہیں۔
اشتہار
ترکی کے نائب صدر فواد اوقطائی نے ٹوئٹر پر شائع کیے گئے پیغام میں کہا، ’’یہ جوابی اقدام ہے کیونکہ امریکا نے اُن کی ملکی اقتصادیات پر دانستہ حملہ کیا ہے۔‘‘ گزشتہ جمعے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا تھا،’’ترکی سے امریکا لائے جانے والے اسٹیل پر بیس فیصد جبکہ ایلومنیم پر پچاس فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔‘‘
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکی پادری اینڈریو برَنسن کی رہائی سے متعلق مطالبات مسترد کیے جانے کے بعد امریکا نے ترکی کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا تھا، جب کہ اس تناظر میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔
آج بدھ کی صبح میں ایشیائی منڈیوں میں ترک لیرا کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں مزید دو فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ گزشتہ روز ترک لیرا کی قدر میں قدرے بہتری رونما ہوئی تھی۔
منگل چودہ اگست کو یورو زون کی کرنسی ’یورو‘ کی قدر میں بھی کمی واقع ہوئی تھی، جو گزشتہ تیرہ ماہ کے دوران امریکی ڈالر اور سوئٹزرلینڈ کی کرنسی فرانک کے مقابلے یورو کی کم ترین سطح ہے۔ منگل کو ترک کرنسی لیرا کی قدر میں تقریباً سات فیصد کی بہتری ہوئی ہے لیکن اس میں استحکام کے حوالے سے خدشات بدستور قائم ہیں۔ ماہرین کے مطابق ترک کرنسی لیرا کی گرتی ہوئی قدر اور ترک صدر کا شرح سود کم کرنے کا اعلان یورپی مالی منڈیوں کے لیے حوصلہ افزا نہیں ہے۔
دوسری جانب برلن میں ایک نیوزکانفرنس میں ترکی کی اقتصادی صورت حال کے تناظر میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے مرکزی بینک کی خود مختاری کو یقینی بنائے۔ چانسلر میرکل نے مزید کہا کہ ترکی کو غیرمستحکم کرنے میں کسی کی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور جرمنی اقتصادی طور پر ترقی کرتا ہوا ترکی دیکھنا چاہتا ہے۔
ع آ/ ع ا (نیوز ایجنسیاں)
ترک لیرا کا بحران ہے کیا؟
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ترکی کو قرضوں اور مالی ادائیگیوں کے بحران کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ ترک کرنسی اپنے ان بحرانی حالات تک کیسے پہنچی۔
تصویر: picture-alliance/A.Gocher
ایک واضح تصویر
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Mc Grath
خسارا پورا کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ترکی کو روایتی طور پر روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات و درآمدات کے درمیان پیدا مالی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سن 2008 میں امریکا اور یورپ میں پائے جانے والے مالی بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کے لیے ترکی جیسے ممالک کی ضرورت تھی۔
تصویر: AP
ادھاری شرح پیداوار
بین الاقوامی سرمایے کی قوت پر ترکی کے مالی خسارے کو کم کرنے کے علاوہ بھاری حکومتی اخراجات کو جاری رکھنے اور اداروں کو مالی رقوم کی فراہمی کی گئی۔ قرضوں پر انحصار کرتی شرح پیداوار نے ترک اقتصادیات کو قوت فراہم کی اور حکومت کی مقبولیت میں اضافے کے لیے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا۔ کسی بھی مقام پر اس تیز عمل کو قدرے کم رفتار دینے کی ہمت حکومتی ایوانوں سے سامنے نہیں آئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
ابھرتی اقتصادیات کے تشخص میں کمی
سرمایہ کاروں نے حالیہ کچھ عرصے سے بتدریج ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں سے اپنے سرمایے کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں زورآور ترقی کے بعد امریکا کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ اور آسان مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ اس بنیادی فیصلے سے امریکی ڈالر کی قدر بلند ہوئی اور دوسری جانب ترک لیرا کی قدر گر گئی، اس نے ترک معاشی افزائشی عمل کو بھی روک دیا۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
ایردوآن پر عوامی اعتماد میں کمی
ابھرتی اقتصادیات میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی انتہائی زیادہ ہونے پر عالمی معاشی منظر پر نمایاں بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا ایردوآن حکومت میں اقتصادی بدنظمی خیال کی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایردوآن اقتصادی پالیسیوں میں جدت پر یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
ٹرمپ کے ٹویٹ نے ہلچل پیدا کر دی
دس اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ بظاہر یہ محصولات کم نوعیت کے ہیں لیکن کے اثرات کا حجم بہت وسیع ہے یعنی ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس فیصلے نے ترک اقتصادیات میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا اپنی حیثیت کھو رہا ہے۔
تصویر: Twitter/Trump
دوستی سے دشمنی
امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتاری اور جیل میں مقید رکھنے نے ترک امریکی تعلقات کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شامی کردوں کی امریکی حمایت بھی ہے۔ دیگر نزاعی معاملات میں انقرہ حکومت کی روس سے میزائل نظام کی خرید اور امریکا کا جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا بھی اہم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lemarque
فرد واحد کی حکمرانی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس جون کے بعد تیس فیصد کی کمی اور بازارِ حصص میں مالی بحران پیدا ہوا۔ اسی ماہِ جون میں رجب طیب ایردوآن نے مئی کے انتخابات کے بعد انتہائی قوت اور اختیارات کے حامل صدر کا منصب سنبھالا۔ اس مطلق العنانیت نے ترکی کو اپنے یورپی اتحادیوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel
ترک صدر کا داماد: البیراک
جون میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے وزارت مالیات کسی ٹیکنو کریٹ کو دینے کے بجائے اپنے داماد بیرات البیراک کوسونپ دی۔ ترک وزارت مالیات کے دائرہٴ کار و اختیارات میں بھی ایردوآن کے حکم پر اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ترک مرکزی بینک کی آزادی کو محدود کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/M. Alkac
’اقتصادی جنگ‘
ترک صدر ایردوآن کے اعتماد میں ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ترکی کو کمزور کرنے کے اقدامات کو ’اقتصادی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ انٹرنینشل مانیٹری فنڈ سے مدد طلب کرنے یا شرح سود میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کی جگہ وہ زوردار تقاریر پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔