جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ترکی کی جانب سے اسپین میں ایک جرمن لکھاری کی گرفتاری کے لیے جاری کردہ انٹرپول وارنٹس کے اجرا پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے یہ اقدامات انٹرنیشنل پولیس کے ’غلط استعمال‘ تک جا پہنچے ہیں۔
اشتہار
اتوار کے روز انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میرکل نے کہا کہ ترکی کی جانب سے انٹرپول پولیس کے ذریعے افراد کی گرفتاری کے لیے ’ریڈوارنٹ‘ کا ’غلط استعمال‘ کیا جا رہا ہے۔
ترکی کی جانب سے ’ریڈ ورانٹ‘ کے اجرا پر ہفتے کے روز دوگان اخانلی کو اسپین میں روکا گیا تھا۔ جرمنی اور ترکی کی دوہری شہریت کے حامل اس لکھاری کو اتوار کو رہا کر دیا گیا، تاہم انہیں ہدایات دی گئیں کہ وہ ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ میں ہی موجود رہیں، اس دوران ہسپانوی حکومت ترکی کی جانب سے ان کی حوالگی کی درخواست کا جائزہ لے رہی ہے۔
میرکل نے کہا، ’’یہ نادرست عمل ہے اور مجھے خوشی ہے کہ اسپین نے انہیں رہا کر دیا ہے۔ ہمیں انٹرپول جیسی بین الاقوامی تنظیموں کا غلط استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے۔‘‘
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
گزشتہ برس جولائی میں ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومت کے مخالفین کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن کی وجہ سے انقرہ حکومت اور یورپی یونین کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاری ہے۔ اب تک زیرحراست قریب پچاس ہزار افراد میں بہت سے ایسے بھی ہیں، جو بیک وقت ترکی اور یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی شہری بھی ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہےکہ ترکی میں صدر رجب طیب ایردوآن اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کرانے میں مصروف ہیں۔
چانسلر میرکل دیگر یورپی رہنماؤں کے مقابلے میں ایردوآن پر تنقید سے بچتی آئی ہیں اور اس پر انہیں تنقید کا بھی سامنا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق میرکل مہاجرین کے بحران کے تناظر میں ایردوآن سے نرم رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، تاکہ ترکی شامی مہاجرین اور یورپ کے درمیان ایک بفر ریاست کا کام سرانجام دیتا رہے۔
میرکل نے تاہم اپنے بیان میں کہا، ’’دوگان بہت سے دیگر افراد کی طرح بد قسمتی سے ایسے ہی واقعات کا حصہ ہیں۔ اسی لیے ہم نے ترکی کے حوالے سے اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں، کیوں کہ جو کچھ ایردوآن کر رہے ہیں، وہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔‘‘
ہفتے کے روز ترک صدر ایردوآن نے جرمنی میں مقیم ترک باشندوں سے کہا تھا کہ وہ جرمنی میں ’ترکی کی مخالف بڑی پارٹیوں‘ کو اگلے ماہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں سبق سکھا دیں۔
اس سے قبل جرمن وزیرخارجہ زیگمار گابریل نے ترکی کو متنبہ کیا تھا کہ وہ خود کو جرمن سیاست سے دور رکھے۔
ترکی میں اپنی جماعت اے کے پارٹی کے حامیوں سے اپنے خطاب میں ایردوآن نے کہا، ’’تم ہوتے کون ہو ترکی کے صدر سے بات کرنے والے۔ بات کرنی ہے تو ترکی کے وزیرخارجہ سے بات کرو۔ اپنی اوقات میں رہو۔‘‘