ترکی اور شام میں ہلاکتیں اب اٹھائیس ہزار سے بھی زائد
12 فروری 2023ترکی اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے چھ روز بعد دونوں ممالک میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر اب اٹھائیس ہزار سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ زلزلے میں مرنے والوں کی تعداد دگنی تک ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی امور اور ہنگامی امداد کے لیے رابطہ کار مارٹن گریفتھس ہفتے کے روز زلزلے سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے ترکی پہنچے۔
ترکی میں ہلاکتوں کی تعداد 24,517 ہو چکی ہے۔ پڑوسی ملک شام میں حکومت اور اپوزیشن کے زیر قبضہ علاقوں میں ہلاکتوں کی تعداد 3,553 ہے۔ تاہم شام میں ہونے والی ہلاکتوں کی یہ تعداد جمعے تک کی ہے کیونکہ اس کے بعد سے کوئی نئے اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے۔ ترکی کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے سرکاری ادارے اے ایف اے ڈی کے مطابق پیر کی صبح پہلے زلزلے کے بعد سے اب تک وہاں دو ہزار سے زائد آفٹر شاکس ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔
جرمنی کی زلزلہ متاثرین کے لیے فاسٹ ٹریک ویزا کی پیشکش
جرمنی کی خارجہ اور داخلہ امور کی وزارتوں نے ترکی کے ایسے زلزلہ زدگان کو، جن کے رشتہ دار جرمنی میں مقیم ہیں، عارضی طور پر اپنے ایسے عزیزوں کے ساتھ رہنے کی اجازت دینے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ دونوں وزارتوں نے کاغذی کارروائی تیز کرنے اور ضروری سرکاری رکاوٹیں کم کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس بھی قائم کی ہے۔ وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا، ''مقصد یہ ہے کہ ان کیسز کے لیے ویزا کے عمل کو زیادہ سے زیادہ سادہ بنایا جائے۔‘‘
اس کے علاوہ جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے کہا کہ یہ عمل باقاعدہ ویزا کے اجرا کے ساتھ کیا جائے گا، جو تیزی سے جاری کیے جائیں گے اور تین ماہ کی مدت کے لیے ہوں گے۔ فیزر نے ٹوئٹر پر لکھا، ''ہم جرمنی میں ترک یا شامی خاندانوں کے لیے یہ ممکن بنانا چاہتے ہیں کہ وہ آفت زدہ علاقوں سے اپنے قریبی رشتہ داروں کو جلد از جلد عارضی طور پر اپنے پاس بلا سکیں۔‘‘
خیال رہے کہ ترکی سے باہر ترک یا ترک نژاد باشندوں کی سب سے بڑی تعداد جرمنی میں آباد ہے۔
شا م میں امداد نظر انداز کرنے کا الزام 'غیر منصفانہ‘
شام کے لیے یورپی یونین کے مندوب نے دمشق پر زور دیا کہ وہ انسانی امداد کے مسائل پر سیاست نہ کرے۔ اس مندوب نے ان الزامات کو بھی مسترد کیا جن کے مطابق یورپی یونین شامی متاثرین کو کافی مدد فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ڈین سٹوینیسکو نے روئٹرز کو بتایا، ''امداد فراہم نہ کرنے کا الزام لگانا بالکل غیر منصفانہ ہےجبکہ حقیقت میں ہم ایک دہائی سے مسلسل یہی کر رہے ہیں اور زلزلے کے نتیجے میں بحران کے دوران بھی ہم بہت کچھ کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یورپی یونین نے شامی حکومت کے زیر قبضہ اور باغیوں کے زیر کنٹرول دونوں طرح کے علاقوں میں امداد اور ریسکیو مشنوں اور ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے لیے 50 ملین یورو سے زائد کی رقوم جمع کی ہیں۔
دم توڑتی امیدیں
خدشہ ہے کہ تباہ شدہ عمارات کے ملبے تلے دبے اور ممکنہ طور پر ابھی تک زندہ افراد کی تعداد اب بہت ہی کم ہو گی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق صرف ترکی میں ہی زلزلے کے ایک ملین سے زائد متاثرین اس وقت عارضی قیام گاہوں میں مقیم ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں ابھی تک ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد کارکن امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
ان میں تقریباﹰ آٹھ ہزار ایسے امدادی کارکن بھی شامل ہیں جو بیرون ملک سے ترکی پہنچے ہیں۔ زلزلے میں زندہ بچ جانے والے افراد کی بازیابی کی امیدیں اب کم ہوتی جا رہی ہیں تاہم اس تباہی میں زندہ بچ جانے والوں کی تلاش اب بھی جاری ہے۔ اب حکام اور امدادی اداروں کی توجہ بچ جانے والوں کی مدد پر مرکوز ہو گئی ہے۔ ان میں بہت سے لوگوں کو امداد کی اشد ضرورت ہے۔
امداد کی اپیلوں میں تیز ی
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ زلزلے کے بعد دونوں ممالک میں کم از کم 870,000 افراد کو فوری طور پر خوراک کی ضرورت ہے، جس سے صرف شام میں 5.3 ملین افراد بے گھر ہو سکتے ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے ترکی میں کم از کم 590,000 نئے بے گھر ہونے والے اور شام میں 284,000 افراد کو خوراک فراہم کرنے کے لیے 77 ملین ڈالر کی اپیل کی ہے۔
پورے خطے میں درجہ حرارت انجماد سے نیچے ہے اور بہت سے لوگوں کے پاس جائے پناہ نہیں تھی۔ ترکی میں حکومت نے لاکھوں گرم کھانے، خیمے اور کمبل تقسیم کیے ہیں لیکن پھر بھی حکام بہت سے ضرورت مندوں تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
شام میں بارہ سالہ خانہ جنگی سے گھرے علاقے میں تباہی نے مزید مصائب پیدا کر دیے ہیں۔ عالمی ادارہ خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے زلزلہ آنے کے بعد سے پہلے چار دنوں میں ترکی اور شام میں 115,000 لوگوں تک غذائی امداد پہنچائی ہے اور عالمی ادارہ صحت نے 72 میٹرک ٹن ہنگامی سرجری کا سامان پہنچایا ہے۔
ش ر⁄ ش ح (اے ایف پی، اےپی، ڈی پی اے، روئٹرز)