یونان اور ترکی کے رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کو بہتر کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی بازگشت یونانی وزیراعظم کے دورہٴ ترکی کے دوران بڑی شدت سے سنی گئی ہے۔
اشتہار
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انقرہ میں یونانی وزیر اعظم الیکسس سپراس کے ساتھ جو ملاقات کی، اُس میں یہ اتفاق رائے ہوا کہ دونوں ممالک کو باہمی کشیدگی میں کمی لانا چاہیے۔ دونوں رہنماؤں نے اس ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔
انقرہ میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں لیڈروں نے توانائی کے شعبے میں تعاون کے علاوہ قبرص کے تنازعے کے موضوع پر بھی گفتگو کی۔ ایردوآن اور سپراس کی اس ملاقات میں تارکین وطن کی آمد اور بحیرہ ایجیئن میں دونوں ممالک کی سمندری حدود سے متعلق موضوعات پر بھی بات ہوئی۔
ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں ترک صدر اور یونانی وزیراعظم نے رپورٹرز پر واضح کیا کہ پرانے حل طلب تنازعات کے باوجود انقرہ اور ایتھنز حکومتوں کے لیے باہمی تعلقات کو بہتر بنانا اہم ہے۔ یونانی وزیراعظم نے واضح کیا کہ اُن کا ملک کسی بھی صورت میں باغیوں کو قبول نہیں کرے گا لیکن ترکی کے آٹھ فوجیوں کا معاملہ عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے۔
سپراس نے یہ بھی واضح کیا کہ اُن کی ترک صدر کے ساتھ ملاقات میں اتفاق ہوا ہے کہ بحیرہ ایجیئن میں بڑھتے تناؤ اور کشیدگی میں کمی لانا بھی ضروری ہے۔ سپراس کے مطابق بعض معاملات میں اختلافات کے باوجود اعتماد سازی ضروری ہے اور مذاکرات میں تسلسل سے اختلافی معاملات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
ایردوآن اور سپراس کی اس ملاقات سے قبل ترکی نے اپنے ہاں سے فرار ہونے والے ملکی فوجیوں کی گرفتاری میں مدد دینے والوں کے لیے انعام کا اعلان کر کے اس مکالمت کو قدرے مشکل بنا دیا تھا۔ یہ فوجی ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد فرار ہو کر یونان چلے گئے تھے۔ اُن کی سیاسی پناہ کا معاملہ یونانی عدالت میں زیرغور ہے۔
یونانی وزیراعظم نے ترکی کے دورے کے دوران استنبول کے سابق کیتھڈرل حاجیہ صوفیہ کا بھی دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران ترک صدر کے خصوصی ترجمان ابراہیم کالن الیکسس سپراس کے ہمراہ تھے۔ ماضی میں نو سو برس تک مسیحیت کا اہم گرجا گھر اور پانچ صدیوں تک مسلمانوں کی مسجد رہنے والے مقام کو سن 1935 میں عجائب گھر قرار دے دیا گیا تھا۔
ایتھنز کا تھری اسٹار ہوٹل، اب مہاجرین کے پاس
تین سو سے زائد مہاجرین اور پناہ گزینوں نے یونانی دارالحکومت ایتھنز کے ایک سات منزلہ خالی ہوٹل کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن سٹی پلازہ ہوٹل میں داخل ہوئے اور اس پر قبضہ کر لیا۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
فیملی ہوٹل
سٹی پلازہ ہوٹل خالی پڑا تھا، مگر اپریل میں افغان، ایرانی، عراقی اور شامی مہاجرین اپنے اہل خانہ سمیت اس ہوٹل میں رہنے لگے۔ یہاں مقیم مہاجرین کے خاندان زیادہ تر بچوں اور معمر افراد کے ہم راہ ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
برسوں سے بند
یونانی اقتصادی بحران کے دوران اس ہوٹل کے مالک کو متعدد مالیاتی مسائل درپیش ہوئے، تو اس نے سٹی پلازہ ہوٹل بند کر کے یہ جائیداد بیچنے کی کوشش شروع کر دی۔ اب اس ہوٹل کے استقبالیہ پر مہاجرین کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ان کے کمروں کی چابیاں ان کے حوالے کی جاتی ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
ہوٹل میں منتقلی
ایک شامی خاندان جو سٹی پلازہ ہوٹل میں منتقل ہوا ہے۔ متعدد افراد اس مہاجر بستی سے اس ہوٹل میں منتقل ہوئے جو اس کیمپ کی دگرگوں اور ابتر صورت حال کی شکایت کرتے رہے ہیں۔ مہاجر بستی میں نہ نکاسیء آب کا کوئی درست انتظام تھا، نہ سر چھپانے کی کوئی مناسب جگہ اور نہ ہی معقول مقدار میں خوراک۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
صفائی کا خیال رکھیے
ہر روز یہاں بسنے والے مہاجرین کمروں اور اس ہوٹل کی عمارت کی صفائی کرتے ہیں۔ دو شامی بچے، دس سالہ سیزر اور سات سالہ سدرا ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جا جا کر مٹی، گرد اور دھول کو ختم کرنے میں مدد کرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
چھت کی تلاش
کمپیوٹر کے ماہر اور مترجم علی جعفانی کی تعلق افغانستان سے ہے۔ ان کی اہلیہ وجیہہ اور دو بیٹے بھی ان کے ساتھ ہیں۔ یہ افراد پہلے ایتھنز کے پرانے ہوائی اڈے میں پناہ گزین تھے، تاہم اب یہ خاندان اس ہوٹل میں آن مقیم ہوا ہے۔ جعفانی کا کہنا ہے، جب انہوں نے افغانستان سے سفر کا آغاز کیا تو سرحدیں کھلی ہوئی تھی، تاہم تین ہفتے بعد جب وہ یونان پہنچنے تو صورت حال تبدیل ہو چکی تھی اور وہ یونان میں پھنس کر رہ گئے۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
رضاکار بھی موجود
اطالوی رضاکار اور شامی مہاجرین مل کر اس ہوٹل کے باورچی خانے میں کھانا پکانے میں مصروف ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر یہاں خیرات کی گئی خوارک پہنچتی ہے اور یہاں موجود یہ افراد حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق کھانا پکا کر یہاں مقیم افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
کھانے کا وقت
ہوٹل کے کھانے کے مقام پر یہ کھانا پیش کیا جاتا ہے، جہاں متعدد شہریتوں کے حامل افراد مل کر اسے نوش کرتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
بچوں کا کمرہ
رضاکاروں نے ہوٹل میں ایک کمرہ بچوں کے مشاغل کے لیے بھی وقف کر رکھا ہے۔ بچے یونان میں موجود مہاجرین کا ایک بڑا حصہ ہیں اور یہی اس ہوٹل میں موجود مہاجرین اور ان کے بچوں کی تعداد کے تناسب سے بھی ظاہر ہے۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
اب وقت سونے کا ہے
فیضان داؤد تین برس کے ہیں اور ان کے بھائی راشد کی عمر سات برس ہے۔ یہ دونوں شام سے ہجرت کر کے یونان پہنچنے والے ایک خاندان کے ہمراہ ہیں۔ سٹی پلازہ پہنچنے سے پہلے، یہ ایک ایسی عمارت میں مقیم تھے، جہاں سو مہاجرین رہ رہے تھے جب کہ وہاں بیت الخلا صرف ایک تھا۔ یہاں اس خان دان کے پاس بیت الخلا اور جائے حمام اپنا ہے۔