1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایردوآن کے اتحادی رہنما کا کرد رہنما کی رہائی کا مطالبہ

23 اکتوبر 2024

ترک صدر کے ایک دائیں بازور کے اتحادی نے علیحدگی پسند رہنما عبداللہ اوکلان کو، تشدد ترک کردینے کی صورت میں، معاف کردینے کی تجویز پیش کی ہے۔ اوکلان کی تنظیم نے چالیس برس قبل مسلح تصادم شروع کیا اور وہ برسوں سے جیل میں ہیں۔

عبداللہ اوکلان
جیل میں قید کرد علیحدگی پسند رہنما عبداللہ اوکلان اور ان کی تنظیم نے چالیس برس قبل انقرہ کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی تھی، جو تقربیا بیس برس سے ہی جیل میں قید ہیںتصویر: Beata Zawrzel/NurPhoto/picture alliance

ترکی میں انتہائی دائیں بازو کی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کے رہنما اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ایک اہم اتحادی دولت باحچلی نے منگل کے روز ایک تجویز پیش کی کہ جیل میں قید کرد علیحدگی پسند کرد رہنما عبداللہ اوکلان اور ان کی تنظیم اگر ہتھیار ڈال دے اور مسلح جد وجہد سے باز آجائے، تو انہیں پیرول پر رہا کر دیا جائے اور انہیں ترک پارلیمنٹ میں بولنے کی اجازت دی جائے۔

پی کے کے نے ایک علیحدہ خودمختار ریاست کے لیے انقرہ کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی تھی، جس کے تقریبا چالیس برس بعد دولت باحچلی نے یہ تجویز پیش کی ہے۔ یہ تنازعہ سن 1984میں شروع ہوا تھا، جس بعد سے اب تک تقریبا 40,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ترکی نے 'ڈسکارڈ' میسجنگ پلیٹ فارم کو بلاک کر دیا

اگرچہ ترکی نے سن 2012 میں پی کے کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز کیا تھا، تاہم سن 2015 میں دونوں فریقوں کے درمیان جنگ بندی ٹوٹ گئی، جس سے مزید خونریز تنازعے کی واپسی ہوئی۔

ترکی، امریکہ اور یورپی یونین نے پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ اوکلان کو کینیا میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ سن 1999 سے استنبول کے قریب ایک جزیرے کی جیل، عمرالی میں، عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

دنیا بھر کے ممالک، خاص طور پر یورپ میں، اوکلان کی گرفتاری کے بعد سے ان کی رہائی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرے باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں۔

ترکی میں کرد رہنما صلاح الدین دیمیرتاش کو 42 سال قید کی سزا

کرد نواز سیاستدان 'باعزت امن' کے لیے تیار

باحچلی نے منگل کے روز کہا، "دہشت گرد رہنما یکطرفہ طور پر خود اعلان کرنے دیں کہ دہشت  گردی ختم ہو گئی ہے اور ان کی تنظیم کو تحلیل کر دیا گیا ہے۔" انہوں نے مزید کہ پی کے کے کو خود ہی کو غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کرنی چاہیے اور اس کے رہنماؤں کو جیل بھیج دیا جانا چاہیے۔

یکم اکتوبر کو پارلیمان کے اجلاس کے آغاز پر دولت باحچلی کو ڈی ای ایم کے ارکان پارلیمان کے ساتھ گرمجوشی سے مصافحہ کرنے کے واقعے نے سب کو حیران کر دیاتصویر: Christoph Hardt/Panama Pictures/picture alliance

دولت باحچلی، پی کے کے اور کرد نواز پیپلز ایکویلیٹی اینڈ ڈیموکریسی پارٹی (ڈی ای ایم) کے خلاف اپنی سخت تنقید کے لیے معروف ہیں۔ تاہم یکم اکتوبر کو پارلیمان کے اجلاس کے آغاز پر انہیں ڈی ای ایم کے ارکان پارلیمان کے ساتھ گرمجوشی سے مصافحہ کرنے کے واقعے نے سب کو حیران کر دیا۔

ڈی ای ایم کے ڈپٹی لیڈر طالع ہیتیموگلاری نے باحچلی کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، "اوکلان کی تنہائی کو ختم کریں اور انہیں آنے دیں اور بولنے دیں۔ پھر ہم سن سکتے ہیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔"

طالع نے اراکین پارلیمنٹ کو بتایا کہ ان کی پارٹی "باعزت امن" قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

ترکی کے صدر ایردوآن کا دورہ عراق

اوکلان کی آزادی یا اقتدار پر ایردوآن کی گرفت؟

اوکلان کے وکلاء، جنہیں مبینہ طور پر 43 ماہ سے ان تک رسائی سے محروم رکھا گیا ہے، نے اس تجویز کا خیرمقدم کیا ہے۔ صدر ایردوآن نے بھی اسے "ایک تاریخی کھڑکی" قرار دیا اور کہا، "ہر وہ کال جو قانون کے تقاضوں کو پورا کرتی ہو اور اس کی تعمیل کرتی ہو، اہم ہے۔"

اقوام متحدہ اور امریکہ کی پاکستان اور ایران سے تحمل برتنے کی اپیل

اگرچہ باحچلی کی تجویز نے بہت سے لوگوں کو حیران کیا ہے، تاہم اس حوالے سے یہ قیاس آرائیاں بھی ہو رہی ہیں کہ ایردوآن ڈی ای ایم کی حمایت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں، جو ترک پارلیمنٹ میں تیسرا سب سے بڑا بلاک ہے، تاکہ تاحیات اقتدار میں رہنے کی جستجو میں وہ ملک کے آئین میں ضروری تبدیلیاں کر سکیں۔

اوزگور اوزیل، جو کہ حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی پی ایچ) کے قائد ہیں، نے اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "یہ منصوبہ ترکی کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے رجب طیب ایردوان کے مسئلے کو حل کرتا نظر آتا ہے اور اسی لیے اس سے بدبو آتی ہے۔"

 ایردوآن تیسری بار گزشتہ برس اقتدار میں آئے تھے اور تبھی سے وہ مسلسل اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)

ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی کے یورپی یونین سے تعلقات کشیدہ

03:31

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں