ترکی: جاسوسی کے الزام میں اسرائیلی جوڑے کی گرفتاری
16 نومبر 2021
اسرائیل نے جاسوسی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ ترکی کی ایک عدالت کے حکم پر جاسوسی کے الزام اسرائیلی جوڑے کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اشتہار
اسرائیل کے وزیر اعظم نیفتالی بینٹ کا کہنا ہے کہ ترکی میں گرفتار کیے جانے والے اسرائیلی جوڑے کی رہائی کے لیے حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے ان الزامات کی بھی تردید کی کہ اسرائیلی شہری استنبول میں جاسوسی کر رہے تھے۔ اسرائیل کا اصرار ہے کہ دونوں شخص ترکی سیر و سیاحت کے لیے گئے تھے۔
جمعے کے روز ترکی ایک عدالت نے نٹالی اور موڈی اوکنن نامی دو اسرائیلی شہریوں کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔ ترکی کی سرکاری میڈیا ایجنسی انادولو کے مطابق ان دونوں پر استنبول میں کملیکا ٹاور سے صدارتی محل کی تصاویر لینے کا بھی الزام ہے۔
اسرائیل کا موقف
اسرائیل نے دونوں افراد کو فوری طور پر رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔ وزیر اعظم نیفتالی بینٹ نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے نٹالی اور موڈی اوکنن کے اہل خانہ سے بات چیت کی ہے اور ان کی رہائی اور اسرائیل واپسی کے لیے جو کوششیں کی جا رہی ہیں اس سے انہیں آگاہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''اس بات پر حکام پہلے سے ہی کافی زور دے چکے ہیں کہ وہ دونوں کسی بھی اسرائیلی ایجنسی کے لیے کام نہیں کرتے ہیں۔ اواخر ہفتہ، وزارت خارجہ کی قیادت میں سب سے زیادہ سینیئر اسرائیلی حکام اس مسئلے سے نمٹنے اور جتنی جلدی ممکن ہو اس کا حل تلاش کرنے میں لگے رہے۔''
اسرائیلی وزیر اعظم نے ان دونوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے کہا، ''دو معصوم شہری غلطی سے ایک پیچیدہ صورتحال میں پھنس گئے ہیں۔''
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ نٹالی اور موڈی اوکنن بس ڈرائیو ہیں اور ان کا کسی ایجنسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم ترک حکام کے مطابق دونوں جاسوس ہیں اور عدالت کے مطابق جب تک ان کے خلاف مقدمے کی سماعت نہیں شروع ہوتی اس وقت تک وہ حراست میں رہیں گے۔
ترکی کا موقف
گزشتہ جمعے کو ترکی کی ایک عدالت نے ان دونوں مشتبہ افراد کی جاسوسی کے الزام کے تحت گرفتاری کا حکم دیا تھا۔ ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق اسرائیلی جوڑے نے استنبول کے معروف ٹاور کی بلندی سے صدارتی محل کی تصاویر کھینچی جس کا وہاں پر موجود ایک ملازم نے نوٹس لیا اور پولیس حکام کو آگاہ کیا۔ اس کے بعد پولیس نے انہیں اپنی حراست میں لے لیا۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیلی جوڑے کے ساتھ ایک ترک باشندہ بھی تھا اور اسے بھی حکام نے سیاسی اور عسکری امور کی جاسوسی میں مدد کے الزام میں حراست میں لیا ہے۔
ترکی کی میڈیا نے گزشتہ ماہ بھی اس طرح کی اطلاعات دی تھیں کہ ملک بھر میں تقریباً ایسے پندرہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جو اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے لیے کام کر رہے تھے۔ تاہم اسرائیلی ایجنسی نے اس وقت بھی اس سے انکار کیا تھا۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز)
طاقتور سربراہان کے شاندار محلات
حالیہ دور میں کئی ممالک کے سربراہان نے شاندار اور پرشکوہ محلات تعمیر کروائے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال روس کے صدر ولادمیر پوٹن کا بحیرہ اسود کے ساحل پر تعمیر کیا جانے والا عالیشان محل ہے۔
تصویر: Klaus Rose/dpa/picture alliance
صدر پوٹن کا محل
اس کا انکشاف روسی اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی نے ایک ویڈیو پوسٹ میں کیا جو وائرل ہو گئی۔ اس ویڈیو کو نوے ملین سے زائد دفعہ یو ٹیوب پر دیکھا جا چکا ہے۔ بحیرہ اسود کے کنارے پر تعمیر کیے گئے اس محل کی قیمت ایک ارب یورو سے زیادہ ہے۔ ناوالنی کے مطابق یہ محل مناکو کے شہزادے کے محل سے بھی 40 گنا بڑا ہے۔ روسی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ محل کئی کاروباری حضرات کی مشترکہ ملکیت ہے جن کے نام افشا کرنا ممکن نہیں۔
تصویر: Navalny Life youtube channel/AP Photo/picture alliance
مراکش کا شاہی محل
یہ مراکش کے بادشاہ محمد ششم کے دس بارہ محلات میں سے ایک محل ہے۔ کرپشن پر کی کتاب ’کنگ آف تھیوز‘ (چوروں کا بادشاہ) کے مطابق ان محلوں کا روزانہ خرچ لگ بھگ بارہ لاکھ یورو ہے۔ یہ محل انیسویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس میں بادشاہ کے بچوں کے لیے ایک الگ اسکول ہے۔
تصویر: Klaus Rose/dpa/picture alliance
اردوآن کا محل
صدر رجب طیب اردوآن نے پندرہ ملین یورو سے یہ ایک مضبوط اور عالیشان محل تعمیر کرایا۔ یہ محل ’ون لیک‘ کے شمال میں بنایا گیا ہے۔ اس کا طرز تعمیر قدیمی قطب آباد محل جیسا ہے۔ یہ محل سلجوک حکمران سلطان علی الدین نے تیرہویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ محل کی تعمیر پرعدالتی پابندی تھی جسے ترک صدر نے خارج کرکے اپنے لیے یہ تیسرا پرآسائش محل بنوایا۔
برونائی کے دارالحکومت سری بھگوان میں دنیا کا سب سے بڑا محل واقع ہے۔ اس کی تعمیر سن 1984 میں مکمل ہوئی۔ سلطان حسن البلقیہ کا یہ محل دو لاکھ مربع میٹر پر محیط ہے۔ اس میں ایک ہزار آٹھ سو کمرے، ڈھائی سو باتھ روم اور اوپر نیچے جانے کے لیے سترہ لفٹیں ہیں۔ اس محل کی لاگت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
تصویر: Albert Nieboer/RoyalPress/dpa/picture alliance
راشٹر پتی بھون، نئی دہلی
بھارت کے صدر کی رہائش گاہ کی تعمیر سترہ برس میں مکمل ہوئی تھی۔ سن 1950 سے یہ بھارت کے صدر کی رہائش گاہ یا راشترپتی بھون کہلاتی ہے۔ اس میں تین سو چالیس کمرے اور کئی ہال ہیں۔ اس کے کوریڈورز کی مجموعی لمبائی ڈھائی کلو میٹر بنتی ہے۔ اس سے ملحقہ مغل باغ اتنا بڑا ہے کہ اس میں ایک سو فُٹ بال گراؤنڈز سما سکتے ہیں۔
تصویر: Mayank Makhija/NurPhoto/picture alliance
ابو ظہبی کا الوطن محل
الوطن محل باغات میں گِھرا ہوا ہے اور اپنے سفید گنبدوں کی وجہ سے انتہائی پرشکوہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کا کل رقبہ تین لاکھ ستر ہزار مربع میٹر ہے۔ سنگ مرمر کی دیواریں اور سونے کے منقش دروازے اس کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ اس محل میں متحدہ عرب امارات کے حکمران اور ولی عہد کے علاوہ کابینہ کے ارکان کی رہائش گاہیں ہیں۔
تصویر: Erich Meyer/euroluftbild.de/picture alliance
تاجک صدارتی محل
وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان کا صدارتی محل ایک قومی نشان اور سفید ہونے کی وجہ سے ’وائٹ ہاؤس‘ کہلاتا ہے۔ اس محل کے گراؤنڈ میں دنیا کی دوسری بلند ترین فائبر گلاس کی چھت ہے، جو کہ ایک سو پینسٹھ میٹر بلند ہے۔