1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی: حادثے کے بعد عوامی احتجاج جاری، پوليس کی جوابی کارروائی

عاصم سليم16 مئی 2014

ترکی ميں کان کے ایک حادثے ميں 283 افراد کی ہلاکت پر ملک کے کئی حصوں ميں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہيں۔ ملک بھر ميں ہزاروں افراد نے ايک روزہ ہڑتال کی جبکہ متعدد شہروں ميں پوليس اور مظاہرين کے مابين تصادم بھی ہوا۔

تصویر: Reuters

ترک صوبے منيسا کے شہر سوما ميں منگل 13 مئی کو ايک کان ميں پيش آنے والے حادثے ميں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اب 283 ہو گئی ہے۔ سوما سے قريب ايک سو کلوميٹر جنوب ميں واقع شہر اِزمير ميں گزشتہ روز قريب 20 ہزار افراد نے ايک احتجاجی مظاہرہ کيا۔ مقامی پوليس نے مظاہرين کو منتشر کرنے کے ليے پانی کی تيز دھار اور آنسو گيس استعمال کی۔ دارالحکومت انقرہ ميں بھی قريب دو سو افراد نے حکومت کی مخالفت ميں مظاہرہ کيا اور وہاں بھی پوليس نے مظاہرين کے خلاف آنسو گيس اور پانی کی تيز دھار استعمال کی۔ بدھ 14 مئی کو بھی انقرہ اور استنبول ميں ہزاروں افراد نے ريلی نکالتے ہوئے حکومت اور کان کنی کی صنعت سے وابستہ افراد پر لا پرواہی کا الزام عائد کيا تھا۔

جمعرات سولہ مئی کے روز ترکی کی چار سب سے بڑی ليبر يونينوں نے ايک روزہ ہڑتال کی۔ يونينوں کا کہنا ہے کہ اخراجات گھٹانے کے ليے مزدوروں کی زندگيوں کو خطرے ميں ڈالا جا رہا ہے۔ ان کی طرف سے مطالبہ کيا گیا کہ سوما ميں پيش آنے والے حادثے کے قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لايا جائے۔

عبداللہ گل حادثے ميں زخمی ہونے والوں سے ملاقات کرتے ہوئےتصویر: Reuters/President's Press Office/Mehmet Demirci

دريں اثناء ترک صدر عبداللہ گل نے متاثرہ کان کا دورہ کرنے کے بعد کہا کہ ان کے ملک ميں ’ايک بہت بڑا حادثہ‘ پيش آيا ہے اور مستقبل ميں ايسے حادثات سے بچنے کے ليے اقدامات کيے جائيں گے۔ انہوں نے کہا، ’’جو کچھ لازمی ہے، وہ کيا جائے گا۔ ہميں تمام ضوابط کا جائزہ لينا ہوگا، جيسا کہ تمام ترقی يافتہ ممالک کرتے ہيں تاکہ ايسے حادثات دوبارہ نہ ہوں۔‘‘

ادھر سوشل ميڈيا پر ترک وزير اعظم رجب طيب ايردوآن کے ايک مشير يوسف اِرکِل کی ايک تصوير گردش کر رہی ہے، جس ميں اُنہيں ايک شخص کو لاتيں مارتے ديکھا جا سکتا ہے۔ يہ معاملہ کافی طول پکڑتا جا رہا ہے اور ملک ميں برپا سوگوار ماحول ميں عوام اس تصوير پر برہمی کا اظہار کر رہے ہيں۔ اِرکِل نے گزشتہ روز ايک مقامی اخبار کو انٹرويو ديتے ہوئے اپنا دفاع کيا اور کہا کہ متاثرہ شخص نے اُن پر حملہ کرتے ہوئے اُن کی اور وزير اعظم کی توہين کی تھی اور اِسی ليے اُن کی جانب سے ايسا رد عمل سامنے آيا۔

سوما ميں منگل کے روز پيش آنے والے حادثے کے بعد خيال کيا جا رہا ہے کہ قريب 90 افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہيں۔ اُن کے زندہ بچے رہنے کی اميد ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں