ترکی: زنجیروں میں جکڑے 57 پاکستانی تارکین وطن بازیاب
28 نومبر 2017
ترک پولیس نے ایک کارروائی کے دوران ایسے ستاون پاکستانی مہاجرین کو بازیاب کرا لیا ہے، جنہیں زنجیروں میں جکڑ کر استنبول کے ایک تہہ خانے میں قید رکھا گیا تھا۔
اشتہار
ترکی کے مقامی میڈیا کے مطابق انسانی اسمگلروں نے ان ستاون پاکستانی مہاجرین کو اس وجہ سے قید کر رکھا تھا تاکہ ان سے زیادہ رقم حاصل کی جا سکے۔ ترکی کے ایک مقامی اخبار ڈیلی حریت کے مطابق انسانی اسمگلروں نے انہیں یورپ پہنچانے کا وعدہ کيا تھا۔ پاکستانی مہاجرین سے کہا گیا تھا کہ وہ اس وقت فی کس دس ہزار ڈالر ادا کریں گے، جب انہیں یورپ کے کسی ملک پہنچا دیا جائے گا۔
مقامی میڈیا کے مطابق پیر کے روز جب پولیس نے چھاپہ مارتے ہوئے انہیں بازیاب کرایا تو ان میں سے کئی پاکستانی مہاجرین زخمی تھے۔ بتایا گیا ہے کہ انہیں باقاعدہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ترک پولیس نے پاکستانی نژاد ایسے تین مشتبہ انسانی اسمگلروں کو بھی گرفتار کر لیا ہے، جنہوں نے ان پاکستانی مہاجرین کو دھوکہ دیا تھا۔
ڈیلی حریت کے مطابق ترکی میں موجود تارکین وطن کو یہی بتایا جاتا ہے کہ انہیں بہت جلد یونان یا اٹلی پہنچا دیا جائے گا لیکن انہیں کئی کئی ماہ اسی طرح کے خفیہ ٹھکانوں میں قید رکھا جاتا ہے۔ تارکین وطن کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ایسی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں، جن میں وہ یہ اقرار کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں یورپ پہنچا دیا گیا ہے اور وہ اپنے اہل خانہ سے اپیل کرتے ہیں کہ انسانی اسمگلروں کو رقم کی ادائیگی کر دی جائے۔
چند ماہ پہلے بھی ترکی میں متعدد پاکستانی مہاجرین کو قید کر لیا گیا تھا اور ان کی ویڈیوز ان کے پاکستان میں موجود اہل خانہ کو بھیجتے ہوئے تاوان طلب کیا گیا تھا۔ حالیہ چند برسوں میں ترکی کے راستے ہزاروں پاکستانی، افغان، عراقی اور شامی مہاجرین یورپ تک پہنچے ہیں۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔