ترکی سے اٹلی: انسانوں کے اسمگلروں کا نیا اور خطرناک راستہ
شمشیر حیدر
17 فروری 2017
ترکی سے بحیرہ ایجیئن کے ذریعے یونان اور پھر یونان سے مغربی یورپ پہنچنے کے امکانات کم رہ جانے کے بعد انسانوں کے اسمگلروں نے تارکین وطن کو یورپ پہنچانے کے لیے بحیرہ روم کا طویل راستہ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔
اشتہار
یورپ کی جانب غیر قانونی مہاجرت پر تحقیق کرنے والے مختلف جرمن اداروں سے تعلق رکھنے والے ماہرین پر مبنی ادارے (جی اے ایس آئی ایم) کا کہنا ہے کہ انسانوں کے اسمگلروں نے بحیرہ روم کے طویل اور خطرناک راستوں کے ذریعے تارکین وطن کو ترکی سے براہ راست اٹلی پہنچانے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ’’2016ء کے وسط سے لے کر اب تک انسانوں کے اسمگلروں نے بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے مہاجرین کو ترکی سے براہ راست اٹلی پہنچانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔‘‘
اعداد و شمار کے مطابق ان اسمگلروں نے صرف گزشتہ برس کے دوران ترکی سے اٹلی کی جانب 59 کشتیاں روانہ کیں جن کے ذریعے 3846 پناہ کے متلاشی افراد کو اٹلی پہنچایا گیا۔ اس خطرناک سمندری راستے کے ذریعے یورپ پہنچانے کے رجحان میں گزشتہ برس کے وسط سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ 2015ء کے پورے سال کے دوران وسطی بحیرہ روم کے ان راستوں کے ذریعے 2741 پناہ گزین ترکی سے اٹلی پہنچے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ 2016ء میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین ڈیل طے پانے کے بعد ترکی سے یونان پہنچنے اور بعد ازاں بلقان کی ریاستوں سے گزرتے ہوئے مغربی یورپ پہنچنے کے راستے تقریباﹰ بند ہو چکے ہیں۔ اسی وجہ سے اسمگلروں نے متبادل راستے اختیار کرنا شروع کر رکھے ہیں۔
رپورٹوں کے مطابق زیادہ تر اسمگلروں کا تعلق یوکرائن سے ہے اور وہ غیر قانونی مہاجرت کے لیے بادبانی کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان راستوں کے ذریعے اٹلی کا رخ کرنے والے زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق شام، افغانستان اور عراق سے ہے۔
پچھلے برس جنوری کے مہینے میں پینتیس کشتیاں لیبیا کے ساحلوں سے بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچی تھیں۔ مجموعی طور پر جنوری 2016ء میں اٹلی میں 4292 پناہ گزینوں کو رجسٹر کیا گیا تھا جو غیر قانونی طور پر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی پہنچے تھے جب کہ اسی دورانیے میں یونان پہنچنے والے پناہ گزین کی تعداد صرف گیارہ سو رہی تھی۔
جی اے ایس آئی ایم نے اپنی تحقیق میں کچھ ایسے رجحانات کی نشاندہی بھی کی ہے جن کے بارے میں عام طور پر بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ ماہرین کے مطابق اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلقان کی ریاستوں کے ذریعے غیر قانونی ہجرت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
مثال کے طور پر سن 2015 کے اواخر سے لے کر اب تک ہنگری کے سکیورٹی اداروں نے سربیا کی سرحد سے غیر قانونی طور پر ہنگری میں داخل ہونے والے 1039 نوجوان مرد تارکین وطن کو گرفتار کیا جن کی اکثریت کا تعلق افغانستان سے تھا۔
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔