ترکی میں شدید سردی کی وجہ سے تین مہاجرین ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ ان کی لاشیں اکڑ چکی تھیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترک حکام کے حوالے سے آج منگل چار دسمبر کو بتایا کہ تین مختلف واقعات میں ترکی کے تین مختلف دیہات میں سردی کی شدت کی وجہ سے تین مہاجرین ہلاک ہو گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان کی اکڑی ہوئی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔
ترکی کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ ہلاک ہونے والا ایک مہاجر افغان تھا۔ اس کی لاش یونان سے متصل ترک صوبے ادرنہ کے گاؤں سیریم سے ملی۔ دیگر دو مہاجرین کی لاشیں قریبی صوبے یوزگات کے دو دیہات سے ملیں۔ ان دونوں ہلاک شدگان افراد کی قومیت اور شناخت واضح نہیں کی گئی ہے۔
حکام نے کہا ہے کہ ایسا یقین ہے کہ یہ تینوں مہاجرین سردی کے سبب ہلاک ہوئے ہیں لیکن مزید حقائق جاننے کی خاطر ان کی لاشوں کو قریبی ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے، جہاں ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔
ساتھ ہی ترک حکام نے ایک ایسے افغان مہاجر کو گرفتار کیا ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ اسے یونانی پولیس نے پکڑ کر واپس ادرنہ روانہ کیا۔ اس کا نام جمال الدین مالنگی بتایا گیا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ ترکی سے یونان جانے میں کامیاب ہو گیا تھا تاہم اسے واپس روانہ کر دیا گیا۔
یہ راستہ دراصل ترکی میں موجود مہاجرین کے لیے یورپی یونین میں داخلے کے لیے ایک بڑی کشش کا باعث ہے۔ یونانی حکام کے مطابق رواں برس کے دوران ترکی سے کم از کم چودہ ہزار افراد نے غیر قانونی سرحد عبور کرنے کی کوشش کی۔ سن دو ہزار سترہ میں یہ تعداد ساڑھے پانچ ہزار نوٹ کی گئی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ کشتیوں کے ذریعے ترکی سے یونان پہنچے تھے۔
ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق ڈیل کی وجہ سے ترکی سے یونان جانے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم پھر بھی کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، جن میں مہاجرین غیر قانونی طور پر بحیرہ ایجئین عبور کر کے یونان جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس کوشش میں کشتیوں کو پیش آنے والے حادثات کی وجہ سے رواں برس اب تک درجنوں مہاجرین لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں۔
ع ب / ا ع / خبر رساں ادارے
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔