ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے متنازعہ معاہدے کے تحت شامی مہاجرین کی ترکی سے جرمنی آمد بھی شروع ہو گئی ہے۔ جرمن دفتر برائے تارکین وطن و مہاجرین کے مطابق آج سولہ شامی مہاجرین جرمنی کے شہر ہینوور پہنچ گئے ہیں۔
اشتہار
جرمنی کے شہر ہینوور سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے متنازعہ معاہدے کے تحت یونان سے ترکی واپس بھیجے جانے والے ہر شامی مہاجر کے بدلے ایک شامی مہاجر کو یورپ میں قانونی طور پر پناہ دی جائے گی۔
غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل آج سے شروع کر دیا گیا ہے۔ معاہدے کے دوسرے حصے کے تحت ترکی کے کیمپوں میں مقیم شامی مہاجرین کو یورپ منتقل کیا جانا تھا۔ اسی سلسلے میں تین شامی خاندانوں کے سولہ افراد کو آج ترکی سے جرمنی کے شہر ہینوور منتقل کر دیا گیا ہے۔
جرمنی کے وفاقی دفتر برائے تارکین وطن و مہاجرین (بی اے ایم ایف) کے کے اہلکار کورینا ویشر نے ہینوور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آج سہ پہر شامی مہاجرین کا ایک اور گروپ جرمنی پہنچ جائے گا۔ ویشر نے صحافیوں سے درخواست کی کہ وہ پناہ گزینوں کی نجی زندگی کا احترام کریں۔
ایک صحافی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس نے جرمنی پہنچنے والے پناہ گزینوں کے اس گروپ کے ہمراہ پانچ بچے بھی دیکھے ہیں۔ نیوز کانفرنس کے دوران مہاجرین مخالف شخص بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس شخص نے ایک بینر اٹھا رکھا تھا جس پر تحریر تھا: ’’واپس جاتے جاؤ، مہاجرین کو خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔‘‘
’ہم واپس ترکی نہیں جانا چاہتے‘
02:29
ویشر نے یہ بھی بتایا کہ جرمنی پہنچنے والے ان شامی مہاجرین کو ابتدائی طور پر صوبہ لوئر سیکسنی کے شہر فریڈلینڈ میں قائم پناہ گزینوں کے ایک عارضی مرکز میں رکھا جائے گا جہاں انہیں روزمرہ کے استعمال کی حد تک جرمن زبان اور قوانین کے بارے میں آگاہی دی جائے گے۔ بعد ازاں انہیں صوبے کے کسی مستقل شیلٹر ہاؤس میں منتقل کر دیا جائے گا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد اور اداروں کی جانب سے ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کے بارے میں سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ مہاجرین کی حمایت کرنے والے افراد نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ ترکی سے یورپ لائے جانے والے مہاجرین کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد بھی کی جا سکتی ہیں۔
دوسری جانب جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ترک وزیر اعظم احمد داؤد آؤلو سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے۔ میرکل کے ترجمان سٹیفان زائبرٹ نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں نے تارکین وطن کی واپسی کے بارے میں گفتگو کی اور انہوں نے معاہدے پر مکمل اور کامیاب عمل درآمد کرنے پر اتفاق بھی کیا۔
جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ موجودہ معاہدے کے مطابق سولہ سو شامی مہاجرین کو ترک کیمپوں سے جرمنی منتقل کیا جائے گا۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔