ترکی سے يونان غير قانونی ہجرت ايک مرتبہ پھر بڑھتی ہوئی
1 مئی 2018
ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں ایک بار پھر اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ تارکین وطن اس بابت ترکی سے یونان کو ملانے والا خشکی کا راستہ استعمال کر رہے ہیں۔
اشتہار
کیچڑ اور مٹی سے لتھڑے کپڑوں کے ساتھ شامی تارکین وطن کا یہ گروپ ابھی ایک کھیت میں ٹریکٹر چلاتے یونانی کسان کے پاس سے گزرا ہے۔ اس کسان نے ان تارکین وطن کو نظر اٹھا کر دیکھا تک نہیں۔ شاید اس کے لیے یہ ایک معمول کی بات ہے۔
ایتھنز کا تھری اسٹار ہوٹل، اب مہاجرین کے پاس
تین سو سے زائد مہاجرین اور پناہ گزینوں نے یونانی دارالحکومت ایتھنز کے ایک سات منزلہ خالی ہوٹل کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن سٹی پلازہ ہوٹل میں داخل ہوئے اور اس پر قبضہ کر لیا۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
فیملی ہوٹل
سٹی پلازہ ہوٹل خالی پڑا تھا، مگر اپریل میں افغان، ایرانی، عراقی اور شامی مہاجرین اپنے اہل خانہ سمیت اس ہوٹل میں رہنے لگے۔ یہاں مقیم مہاجرین کے خاندان زیادہ تر بچوں اور معمر افراد کے ہم راہ ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
برسوں سے بند
یونانی اقتصادی بحران کے دوران اس ہوٹل کے مالک کو متعدد مالیاتی مسائل درپیش ہوئے، تو اس نے سٹی پلازہ ہوٹل بند کر کے یہ جائیداد بیچنے کی کوشش شروع کر دی۔ اب اس ہوٹل کے استقبالیہ پر مہاجرین کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ان کے کمروں کی چابیاں ان کے حوالے کی جاتی ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
ہوٹل میں منتقلی
ایک شامی خاندان جو سٹی پلازہ ہوٹل میں منتقل ہوا ہے۔ متعدد افراد اس مہاجر بستی سے اس ہوٹل میں منتقل ہوئے جو اس کیمپ کی دگرگوں اور ابتر صورت حال کی شکایت کرتے رہے ہیں۔ مہاجر بستی میں نہ نکاسیء آب کا کوئی درست انتظام تھا، نہ سر چھپانے کی کوئی مناسب جگہ اور نہ ہی معقول مقدار میں خوراک۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
صفائی کا خیال رکھیے
ہر روز یہاں بسنے والے مہاجرین کمروں اور اس ہوٹل کی عمارت کی صفائی کرتے ہیں۔ دو شامی بچے، دس سالہ سیزر اور سات سالہ سدرا ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جا جا کر مٹی، گرد اور دھول کو ختم کرنے میں مدد کرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
چھت کی تلاش
کمپیوٹر کے ماہر اور مترجم علی جعفانی کی تعلق افغانستان سے ہے۔ ان کی اہلیہ وجیہہ اور دو بیٹے بھی ان کے ساتھ ہیں۔ یہ افراد پہلے ایتھنز کے پرانے ہوائی اڈے میں پناہ گزین تھے، تاہم اب یہ خاندان اس ہوٹل میں آن مقیم ہوا ہے۔ جعفانی کا کہنا ہے، جب انہوں نے افغانستان سے سفر کا آغاز کیا تو سرحدیں کھلی ہوئی تھی، تاہم تین ہفتے بعد جب وہ یونان پہنچنے تو صورت حال تبدیل ہو چکی تھی اور وہ یونان میں پھنس کر رہ گئے۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
رضاکار بھی موجود
اطالوی رضاکار اور شامی مہاجرین مل کر اس ہوٹل کے باورچی خانے میں کھانا پکانے میں مصروف ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر یہاں خیرات کی گئی خوارک پہنچتی ہے اور یہاں موجود یہ افراد حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق کھانا پکا کر یہاں مقیم افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
کھانے کا وقت
ہوٹل کے کھانے کے مقام پر یہ کھانا پیش کیا جاتا ہے، جہاں متعدد شہریتوں کے حامل افراد مل کر اسے نوش کرتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
بچوں کا کمرہ
رضاکاروں نے ہوٹل میں ایک کمرہ بچوں کے مشاغل کے لیے بھی وقف کر رکھا ہے۔ بچے یونان میں موجود مہاجرین کا ایک بڑا حصہ ہیں اور یہی اس ہوٹل میں موجود مہاجرین اور ان کے بچوں کی تعداد کے تناسب سے بھی ظاہر ہے۔
تصویر: Jodi Hilton/DW/Pulitzer Center
اب وقت سونے کا ہے
فیضان داؤد تین برس کے ہیں اور ان کے بھائی راشد کی عمر سات برس ہے۔ یہ دونوں شام سے ہجرت کر کے یونان پہنچنے والے ایک خاندان کے ہمراہ ہیں۔ سٹی پلازہ پہنچنے سے پہلے، یہ ایک ایسی عمارت میں مقیم تھے، جہاں سو مہاجرین رہ رہے تھے جب کہ وہاں بیت الخلا صرف ایک تھا۔ یہاں اس خان دان کے پاس بیت الخلا اور جائے حمام اپنا ہے۔
دریائے ایوروس کے کنارے یہ دیہات ترکی اور شمال مشرقی یونان کو ملانے والے خشکی کے راستے پر واقع ہیں، اسی راستے کو اب تارکین وطن استعمال کر کے ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔
یونان پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین کا تعلق شام سے ہے۔ اس سے قبل تارکین وطن ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے ذریعے مختصر سمندری فاصلہ طے کر کے یونانی جزائر کا رخ کرتے رہے ہیں تاہم اب یہ جزائر مہاجرین سے پُر ہیں اور بحیرہء ایجیئن کی نگرانی بھی سخت ہے۔ سن 2015ء میں بحیرہء ایجیئن ہی کے راستے ایک ملین سے زائد مہاجرین یونان پہنچے تھے۔ یونان سے ان افراد نے بلقان خطے کو استعمال کرتے ہوئے مغربی اور شمالی یورپ کا رخ کیا تھا، جن میں سب سے زیادہ تعداد میں تارکین وطن جرمنی آئے تھے۔
رواں سال کے آغاز سے تارکین وطن کی جانب سے خشکی کا یہ طویل راستہ استعمال کرنے کے رجحان میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یونان پہنچنے والے ان تارکین وطن میں سے زیادہ تر شمالی شامی علاقے عفرین سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں ترک فوج نے رواں برس مارچ میں عسکری کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
یورپ میں اچھے مستقبل کا خواب، جو ادھورا رہ گیا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔
تصویر: DW/G. Harvey
8 تصاویر1 | 8
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ شام اور عراق سے تعلق رکھنے والے قریب تین ہزار افراد اب تک اس راستے سے یونان پہنچ چکے ہیں۔
یورپی سرحدی ایجنسی فرنٹیکس کی ترجمان ایزابیلا کوپر کے مطابق، ’’ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ تارکین وطن کی تعداد میں اضافے کی وجہ کیا ہے۔ وقت گزرنے پر یہ بات معلوم ہو گی کہ آیا لوگ سمندر کے بجائے واقعی خشکی کے راستے کو استعمال کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘‘
مقامی کسانوں نے تارکین وطن کی اسی آمد کے تناظر میں مہاجرین کو پانی اور بسکٹ مہیا کرنے کا بندوبست کر رکھا ہے، جب کہ انہیں شمالی یونانی شہر تھیسالونیکی کی جانب روانہ کرنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔