ترکی سے ہر مہینے پھر ہزاروں تارکین وطن یونان پہنچنے لگے
7 ستمبر 2019
ترکی سے بحیرہ ایجیئن میں واقع یونان کے مختلف جزائر تک پہنچنے والے تارکین وطن کی ماہانہ تعداد پھر بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ جرمنی نے اس بارے میں تشویش ظاہر کی ہے کہ اگست میں آٹھ ہزار سے زائد تارکین وطن ترکی سے یونان پہنچے۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن، یونانی دارالحکومت ایتھنز اور ترک دارالحکومت انقرہ سے ہفتہ سات ستمبر کو ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ترکی سے سمندری راستے سے یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے مختلف جزائر تک پہنچنے والے تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی افراد کی ماہانہ تعداد ایک بار پھر نہ صرف بہت زیادہ ہو گئی ہے بلکہ یہ رجحان اس لیے بھی تشویش کا باعث ہے کہ ترکی نے حال ہی میں دوبارہ یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ بحیرہ ایجیئن میں ایسے تارکین وطن کو روکنے کے بدلے اسے اور زیادہ بین الاقوامی امداد دے جائے۔
برلن میں جرمن حکومت کی نائب ترجمان مارٹینا فِیٹس نے صحافیوں کو بتایا، ''ہم اس پیش رفت پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور یہ تشویش کا باعث ہے۔‘‘ دوسری طرف اسی بارے میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے جاری کردہ اعداد و شمار بھی یورپی حکومتوں کے لیے کافی تشویش کا سبب بنے ہیں۔
ماہانہ تعداد ڈھائی گنا ہو گئی
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق اس سال اگست میں ترکی سے مجموعی طور پر 8,103 تارکین وطن پناہ کی تلاش میں بحیرہ ایجیئن میں واقع یونان کے مختلف جزائر پر پہنچے۔
یہ تعداد گزشتہ برس اگست کے مہینے میں ریکارڈ کی گئی ایسے تارکین وطن کی تعداد کا تقریباﹰ ڈھائی گنا بنتی ہے۔ اگست 2018ء میں ایسے 3,200 مہاجرین اور تارکین وطن ترکی سے یونانی جزائر پر پہنچے تھے۔
اسی دوران یو این ایچ سی آر نے یہ بھی کہا ہے کہ اب ایسے تارکین وطن کی یونانی جزائر پر آمد ایک بار پھر اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ بحیرہ ایجیئن میں لیسبوس، خیوس، ساموس، لیروس اور کوس کے یونانی جزائر پر ان تارکین وطن کی رجسٹریشن کے لیے قائم کردہ تمام کیمپ گنجائش سے کہیں زیادہ بھر چکے ہیں۔
تارکین وطن کو روکنے کی ترک یورپی ڈیل
سن 2016 میں ترکی نے یورپی یونین کے ساتھ ایک ایسی ڈیل طے کر لی تھی، جس کے تحت انقرہ کو بحیرہ ایجیئن کے راستے تارکین وطن کو یونانی جزائر تک پہنچنے سے روکنا تھا اور اس کے بدلے میں یونین کو ترکی کو تین بلین یورو (3.3 بلین ڈالر) بین الاقوامی امداد کے طور پر ادا کرنا تھے۔
اس کے علاوہ اسی ڈیل کے تحت یورپی یونین کو ترکی میں مقیم شامی مہاجرین میں سے ہر اس تارک وطن کے بدلے ایک مہاجر کو اپنے ہاں قبول کرنا تھا، جس کی یونان میں پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی ہو اور جسے وہاں سے ملک بدر کر کے واپس ترکی بھجوا دیا گیا ہو۔
یورپی یونین کے ترکی کے ساتھ تین سال پہلے طے پانے والے اس معاہدے کا ایک پس منظر یہ بھی تھا کہ 2011ء میں شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے اب تک ترکی میں مقیم شامی مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جو 3.6 ملین بنتی ہے۔ اب تک کوئی بھی دوسرا ملک ایسا نہیں، جس نے اپنے ہاں شامی مہاجرین کو ترکی سے زیادہ تعداد میں پناہ دی ہو۔
م م / ع ا / ڈی پی اے
یونانی جزیرے لیسبوس کا موریا کیمپ، مہاجرین پر کیا گزر رہی ہے
لیسبوس کے یونانی جزیرے پر پھنسے ہوئے تارکین وطن کو حالات مزید خراب ہونے کی توقع ہے۔ انسانی بنیادوں پر سہولیات مہیا کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیمیں یا تو اپنا کام سمیٹ کر جانے کی تیاری میں ہیں یا پہلے ہی رخصت ہو چکی ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ایجئین میں پھنسے مہاجرین
مہاجرین کی مد میں نجی فلاحی تنظیموں کو یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ رواں برس اگست میں ختم ہو گئی تھی۔ تب سے یونانی حکومت ہی جزائر پر مقیم پناہ گزینوں کی تنہا دیکھ بھال کر رہی ہے۔ تاہم نہ تو ان مہاجرین کی منتقلی کا کوئی واضح پلان ہے اور نہ ہی اب یہاں مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات میں کوئی تسلسل رہ گیا ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
نہ یہاں نہ وہاں
موریا کا مہاجر کیمپ اور تارکین وطن کے لیے بنائے گئے دوسرے استقبالیہ مراکز میں اب مہاجرین کے نئے گروپوں کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تناؤ کی کیفیت بڑھ رہی ہےاور انفرادی سطح پر ہونے والے جھگڑے جلد ہی نسلی گروپوں کے درمیان سنجیدہ نوعیت کی لڑائی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
حفظان صحت کی سہولتیں
موریا کے باہر عارضی نوعیت کے غسل خانے کے باہر استعمال شدہ شیمپو اور پانی کی بوتلوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ موریا مہاجر کیمپ میں حفظان صحت کی سہولتوں کے فقدان کے باعث بہت سے لوگوں نے صفائی ستھرائی کے لیے دوسرے امکانات تلاش کرنے شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
فیصلے کا انتظار
اریٹیریا کے تارک وطن امان نے اپنے خیمے میں چائے یا پانی کا نہ پوچھنے پر معذرت کی ۔ وہ تین ماہ سے اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کا منتظر ہے۔ امان کا کہنا ہے کہ موریا کیمپ کے اندر کافی زیادہ مسائل ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
’ہم انسان ہیں‘
اس تصویر میں ایک افغان مہاجر موریا مہاجر کیمپ میں ابتر رہائش کی صورتحال کے خلاف احتجاج کے لیے پلے کارڈ بنا رہا ہے۔ احتجاج کرنے والے بیشتر پناہ گزین قریب ایک سال سے لیسبوس پر ہیں اور اپنی درخواستوں پر فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ معلومات کی کمی، ابتر رہائشی صورت حال اور افغانستان واپس بھیجے جانے کا خوف ان تارکین وطن کو مستقل وسوسوں میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
یونان بھی مجبور
لیسبوس کے افغان مہاجرین مجوزہ احتجاج پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے لیسبوس کے جزیرے پر سیاحوں کی آمد میں سن 2015 کی نسبت قریب 75 فیصد کم ہوئی ہے۔ یونان میں جاری اقتصادی بحران نے بھی جزیرے کے حالات پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ہر روز نئے تارکین وطن کی آمد
سن 2015 سے ہی مہاجرین پر لازم ہے کہ وہ اپنی پناہ کی درخواستوں پر حتمی فیصلے تک جزیرے پر رہیں گے۔ متعدد درخواستوں کو روکنے اور اپیل کے طویل عمل کے سبب تارکین وطن کی ایک مختصر تعداد کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔