سياسی پناہ کے ليے يورپ پہنچنے کے خواہاں تقريباً چھ سو افغان مہاجرين کو ترکی ميں پکڑے جانے کے بعد ہفتے اور اتوار کے درميان ملک بدر کيا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے ليے سرگرم اداروں نے انقرہ حکومت کے اس اقدام پر تنقيد کی ہے۔
اشتہار
ترک حکام غير قانونی طور پر ترکی پہنچنے والے تقريباً چھ سو افغان تارکين وطن کو اسی ہفتے کے اختتام پر ملک بدر کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں۔ اس بارے ميں خبر دارالحکومت انقرہ سے وزارت داخلہ کی جانب سے ہفتہ سات اپريل کو جاری کی گئی۔ وزارت کے بيان کے مطابق يہ افغان مہاجرين اپنے وطن میں ’جاری دہشت گردانہ کارروائيوں اور اقتصادی مسائل کے سبب‘ ايران کے راستے ترکی ميں داخل ہوئے۔ سکيورٹی دستوں نے انہيں پکڑ کر صوبائی اميگريشن حکام کے حوالے کر ديا۔
اطلاعات ہيں کہ ترکی کے مشرقی صوبے ارزرم ميں 591 غير قانونی تارکين وطن کی ملک بدری کے لیے دستاويزی کارروائی مکمل کر لی گئی ہے۔ ان مہاجرين کی ملک بدری کے ليے خصوصی پروازيں ہفتے اور اتوار کے روز مشرقی ترکی سے افغان دارالحکومت کی جانب روانہ ہوں گی۔ وزارت داخلہ نے اپنے بيان ميں يہ بھی کہا ہے کہ ديگر صوبوں ميں موجود غير قانونی تارکين وطن کی ملک بدريوں کے لیے کاغذی کارروائی مکمل کر ليے جانے کے بعد ان کی وطن واپسی کے عمل ميں تيزی آئے گی۔
انسانی حقوق سے منسلک اداروں اور غير سرکاری تنظيموں نے جنگ اور تشدد زدہ علاقوں کی جانب پناہ گزينوں کی ملک بدری کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔ اداروں کے مطابق اس عمل سے ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
يہ امر بھی اہم ہے کہ ايک معروف ترک اخبار نے اسی ہفتے اس بارے ميں خبر شائع کی تھی کہ چند ہزار افعان تارکين وطن غير قانونی طور پر ترکی ميں داخل ہو چکے ہيں اور وہ کئی دنوں تک پيدل سفر کر کے صوبہ ارزرم پہنچے ہيں۔ افغانستان ميں سال رواں کے دوران طالبان اور ديگر دہشت گرد تنظيموں کے دہشت گردانہ حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔