ترکی سے یونان جانے کی کوشش میں سات افغان مہاجرین ہلاک
16 مئی 2018
بحیرہ ایجئین عبور کر کے ترکی سے یونان جانے کی کوشش میں سات افغان مہاجرین ہلاک ہو گئے ہیں۔ ترک ساحلی محافظوں نے بتایا ہے کہ ہلاک شدگان میں تین بچے بھی شامل ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ترک ساحلی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیر کی رات ایک کمزور کشتی کا سہارا لیتے ہوئے یہ مہاجرین ترکی سے یونان جانے کی کوشش میں تھے کہ ان کی کشتی الٹ گئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں سات مہاجرین کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔
ترک ساحلی محافظوں نے منگل 15 مئی کی شام کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے تمام سات افراد کا تعلق افغانستان سے تھا، جن میں تین بچے بھی شامل ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ اس حادثے کی اطلاع ملتے ہی ترکی کے مغربی صوبے چناق قلعے سے ایک ریسکیو ہیلی کاپٹر اور بوٹ فوری طور پر روانہ کر دی گئی تھی، جس نے تیرہ افراد کو زندہ بچا بھی لیا۔
ترک حکام کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ اس کشتی کے حادثے میں جن تیرہ افراد کو زندہ بچایا گیا، ان میں انسانوں کا ایک مشتبہ اسمگلر بھی شامل ہے۔ حکام کے مطابق اس مشتبہ اسمگلر کا تعلق مبینہ طور پر ایران سے ہے۔
ترک نیوز ایجنسی انادولو نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والی کشتی یونانی جزیرہ لیسبوس جانے کی کوشش میں تھی۔
عمومی طور پر یہی جزیرہ، سمندری راستے سے ترکی سے یونان جانے والے، مہاجرین کی پہلی منزل ہوتا ہے۔ لیسبوس میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جہاں وہ انتہائی ابتر حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ ماہ جاری کیے جانے والے ترک حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق رواں برس کے دوران تقریبا تیس ہزار افغان مہاجرین ترکی داخل ہوئے۔
ان مہاجرین کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ یونان چلے جائیں، جہاں سے یہ دیگر یورپی ممالک جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انادولو نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سن دو ہزار سترہ میں ترکی داخل ہونے والے افغان مہاجرین کی تعداد 45 ہزار کے قریب تھی۔
ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق ڈیل کی وجہ سے ترکی سے یونان جانے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم پھر بھی کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، جن میں مہاجرین غیر قانونی طور پر بحیرہ ایجئین عبور کر کے یونان جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس کوشش میں کشتیوں کو پیش آنے والے حادثات کی وجہ سے رواں برس اب تک درجنوں مہاجرین لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں۔
ع ب / ا ا / خبر رساں ادارے
یورپ میں اچھے مستقبل کا خواب، جو ادھورا رہ گیا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔