ترک حکمت عملی: فوجی مہم کی حمایت نہ کرنے والوں کی ’موبنگ‘
مقبول ملک بیکلان کُولاکسی زولو
5 فروری 2018
انقرہ حکومت شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف ترک فوجی مہم کی کھل کر حمایت نہ کرنے والوں کو براہ راست ’موبنگ‘ کا نشانہ بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس وجہ سے ترکی میں اب تک بہت سےافراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔
اشتہار
ترکی میں حکام بہت سے ایسے شہریوں کو حراست میں لے چکے ہیں، جو شامی علاقے عفرین میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف ترک فوج کی مسلح کارروائیوں پر سوشل میڈیا پر کھل کر تنقید کر رہے تھے۔ لیکن اب ایسے افراد بھی حکومت نواز حلقوں کے نشانے پر ہیں، جنہوں نے اب تک اس موضوع پر سوشل میڈیا پر کچھ بھی کہنے سے احتراز کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے انقرہ حکومت کے قریب سمجھے جانے والے ایک ترک نشریاتی ادارے کے اینکرز نے ٹی وی کیمروں کے سامنے سوشل میڈیا پر کئی ایسی سرکردہ شخصیات کے اکاؤنٹس کا پوسٹ مارٹم کر ڈالا، جنہوں نے شمالی شام میں ترک فوجی آپریشن کے حوالے سے کوئی پوسٹ شائع نہیں کی تھی۔ ان سرکردہ ترک شخصیات کو انہی ٹی وی اینکرز نے ایسی ’مشہور ہستیاں‘ قرار دیا، جو ’عفرین میں فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کر رہی‘ تھیں۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی تھی۔
ڈوئچے ویلے کے لیے اس موضوع پر اپنی ایک تفصیلی تحریر میں بیکلان کُولاکسی زولو نے لکھا ہے کہ ترکی میں اب ایسی بہت سی شخصیات کو حکومتی اور سیاسی دباؤ کا سامنا ہے، جو حکمرانوں سے مختلف سوچ کی حامل ہیں اور شامی کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف ترک فوج کی مہم پر یا تو تنقید کر رہی ہیں یا پھر اس کی حمایت نہیں کر رہیں۔
بیکلان کُولاکسی زولو کے مطابق ترکی میں ایسی شخصیات کا المیہ اور شاید واحد قصور یہ ہے کہ وہ حکومت اور فوج کی ہاں میں ہاں نہیں ملا رہیں اور انہیں اس وجہ سے حکام اور حکومت نواز سیاسی اور میڈیا عناصر کی طرف سے ’موبنگ‘ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ ایک جمہوری معاشرے میں محض مختلف سوچ کی حامل ہیں۔
کُولاکسی زولو کے مطابق ترکی میں اس وقت ایسے سرگرم سماجی کارکن بھی دباؤ کا شکار ہیں، جو عام طور پر سوشل میڈیا پر سیاسی موضوعات پر کچھ بھی کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال مشہور ترک اداکارہ گوئپسے اوزائے کی بھی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ عام طور پر ثقافتی موضوعات پر ٹویٹس کرتی ہیں اور شمالی شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف ترک فوجی آپریشن سے متعلق فیس بک یا ٹوئٹر پر کچھ بھی کہنے سے کتراتی ہیں۔
ابھی حال ہی میں الاسکا میں آنے والے زلزلے کے بعد جب اوزائے نے اس زلزلے کے متاثرین کے لیے اظہار ہمدردی کیا، تو سوشل میڈیا پر فوراﹰ ہی ان پر ذاتی حملے شروع کر دیے گئے۔ ان کے بارے میں لکھا گیا، ’’عفرین کے بارے میں کچھ لکھنے کے بجائے، یہ الاسکا کے بارے میں ٹویٹس کر رہی ہیں۔‘‘
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔
تصویر: Reuters/Presidential Palace/K. Ozer
6 تصاویر1 | 6
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گوئپسے اوزائے کو الاسکا میں زلزلے کے بارے میں اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا پڑ گئی اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت ترکی اور ترک عوام کافی حساس دور سے گزر رہے ہیں اور وہ الاسکا میں زلزلے سے متعلق اپنی ٹویٹ پر عوامی ردعمل کو سمجھ سکتی ہیں۔
بیکلان کُولاکسی زولو کے مطابق انتہا تو یہ ہے کہ ایک ترک ریڈیو میں ایک پروگرام کے میزبان نے تو ابھی حال ہی میں یہاں تک کہہ دیا، ’’جو کوئی بھی ترک فوجی آپریشن کے خلاف کچھ کہے، چاہے وہ کوئی صحافی ہو یا کوئی رکن پارلیمان، اسے گولی مار دینا چاہیے۔‘‘
اس طرح کے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ترک معاشرے میں اس وقت کس طرح کی فضا پائی جاتی ہے اور عفرین میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف ترک فوجی آپریشن رائے عامہ میں کس حد تک تقسیم کی وجہ بن چکا ہے۔
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔