ترکی شام میں مسلح آپریشن محدود رکھے، ٹرمپ
25 جنوری 2018امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ چوبیس جنوری کو ٹیلیفون پر اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن سے گفتگو کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر نے ترکی سے کہا ہے کہ وہ شمالی شامی علاقے میں اپنی عسکری کارروائیوں کے سلسلے کو ختم کرے۔ ترکی کے مسلح آپریشن پر کئی اور ملکوں نے بھی انقرہ حکومت سے کہا ہے کہ وہ تحمل اور برداشت سے کام لے۔
ترکی کا عفرین میں ڈھائی سو سے زائد جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ
عفرین کارروائی کے مخالف درجنوں ترک افراد گرفتار
نیا موڑ، ترک افواج شام میں داخل ہو ہی گئیں
ترکی کرد جنگجوؤں کے حوالے سے امریکی ضمانت پر مطمئن نہیں
وائٹ ہاؤس کے مطابق ٹرمپ نے ایردوآن سے کہا کہ وہ اپنے فوجی آپریشن کو محدود رکھیں اور اُس کے دائرے کو اس انداز میں مت وسیع کریں کہ اُس کے نتیجے میں ترک فوج کی امریکی فوجی دستوں سے ٹکراؤ کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔ ترکی اور امریکا مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن بھی ہیں۔
ٹرمپ نے رجب طیب ایردوآن سے واضح طور پر کہا کہ وہ شام میں جاری اپنے عسکری آپریشن سے تشدد کی آگ کو مزید ہوا نہ دیں۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ شام میں تعینات ترک فوجی دستوں کی کارروائیوں سے امریکی فوجی دستوں کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچنا چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں ایک اور تنازعہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ ترک فوج کا شامی علاقے عفرین میں آپریشن پانچویں دن میں داخل ہو چکا ہے۔
دوسری جانب ترک ذرائع نے امریکی و ترک صدور کی اس ٹیلی فونک گفتگو کے موضوعات پر کوئی تفصیلات نہیں بتائی ہیں البتہ یہ ضرور کہا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے کسی تشویش کا اظہار بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق دونوں لیڈروں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں ترک فوج کے آپریشن کو محدود رکھنے کے علاوہ دوسرے موضوعات پر بھی تبادلہٴ خیال کیا گیا۔
شمالی شام کے علاقے عفرین میں ترک فوج جنگجو گروہ وائی پی جی (YPG) کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ ترک صدر اس کرد ملیشیا گروپ کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں یہ بھی اہم ہے کہ شام میں امریکا کے قریب دو ہزار فوجی موجود ہیں۔