1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں مئی میں افراط زر پچھتر فیصد تک پہنچ گیا

3 جون 2024

ايشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ملک ترکی مہنگائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ ترکی کے قومی شماریات کے دفتر نے پیر کو بتایا کہ اپریل میں 69.8 فیصد تک اضافے کے بعد مئی میں سالانہ افراط زر 75.45 فیصد تک پہنچ گیا۔

Türkei I türkische Zentralbank
تصویر: Adem Altan/AFP/Getty Images

ترکی کی سالانہ افراط زر کی شرح مئی میں 75.45 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس بارے میں سرکاری اعداد و شمار پیر کو ایک ایسے وقت پر سامنے آئے جب مرکزی بینک نے توقع ظاہر کی کہ اشیائے صرف کی جو قیمتیں بالآخر اپنے عروج پر پہنچ گئی ہیں ان میں اگلے مہینے کمی ہونا شروع ہو جائی گی۔

 ترکی  مہنگائی کے بحران اور روزمرہ زندگی کے اخراجات میں ہوش رُبا اضافے سے نبردآزما ہے، جس کے سبب صدر رجب طیب  ایردوآن  کو مہنگائی سے نمٹنے کے لیے شرح سود میں اضافے کی مخالفت ترک کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

 مرکزی بینک نے جون 2023 ء میں اپنی کلیدی شرح کو بڑھانا شروع کر دیا تھا اور آہستہ آہستہ اسے 8.5 فیصد سے 50 فیصد تک لے گیا۔

ترکی میں افراط زر کی اونچی شرح، خاتمہ جلد دکھائی نہیں دیتا

03:08

This browser does not support the video element.

گزشتہ ماہ مرکزی بینک کے گورنر فاتح کاراہان نے پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ سال کے آخر میں افراط زر بڑھ کر 38 فیصد تک پہنچ جائے گا جو کہ 36 فیصد کے پچھلے تخمینے سے زیادہ ہے۔ لیکن کاراہان نے یہ بھی کہا کہ مہنگائی مئی میں عروج پر پہنچنے کے بعد جون میں کم ہونا شروع ہو جائے گی۔

 

افراط زر کے اتار چڑھاؤ سے ترکی کی کرنسی لیرا بھی بہت غیر مستحکم ہو گئی ہےتصویر: Tunahan Turhan/Zumapress/picture alliance

ترکی  کے قومی شماریات کے دفتر نے پیر کو بتایا کہ اپریل میں 69.8 فیصد تک اضافے کے بعد مئی میں سالانہ افراط زر 75.45 فیصد تک پہنچ گیا۔ مزید برآں مرکزی بینک کی پیش گوئیوں کے مطابق اپریل اور مئی کے درمیان ماہانہ بنیادوں پر اشیائے صرف کی قیمتوں میں 3.7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ترکی کے  وزیر خزانہ مہمت سمسیک نے گزشتہ ماہ کفایت شعاری کے  تین سالہ منصوبے کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد مہنگائی پر کسی حد تک قابو پانے کے لیے  عوامی اخراجات کو کم کرنا تھا۔

 مارچ کے بلدیاتی انتخابات میں ایردوآن کی AKP پارٹی کو پہنچنے والے شدید انتخابی دھچکے کا ذمہ دار حیران کن مہنگائی اور ترک لیرا کی گراوٹ کو سمجھا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ اس سال مارچ کے مہینے میں ترکی کے مرکزی بینک نے شرح سود میں پانچ سو پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے اسے اسے 50 فیصد مقرر کر دیا تھا۔ اس کی وجہ ترکی میں افراط زر کی بگڑتی ہوئی صورتحال بتائی گئی تھی۔ترکی  کے مرکزی بینک نے ساتھ ہی انتباہ کیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو شرح سود میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

 

اشیائے خورد و نوش پر بھی بہت زیادہ مہنگائی چھائی ہوئی ہےتصویر: Murad Sezer/REUTERS

ترکی  میں گزشتہ چند برسوں کے دوران مہنگائی میں ہوش ربا اضافے نے عوام کو بہت حد تک مشتعل کیا ہے۔ سن دوہزار بائیس میں مہنگائی کے خلاف مظاہرے کرنے والے باشندے سڑکوں پر نکل کر سراپا احتجاج بنے تھے۔ ترکی میں مہنگائی دراصل بے روزگاری اور غربت میں اضافے کا سبب بھی بنی ہے۔ 2019 ء کے اواخر سے کورونا  وبا کے زد میں ترکی بھی آیا تھا اور تب سے ہی ترکی میں بنیادی ضروریات زندگی عام شہریوں کی قوت خرید سے کہیں زیادہ مہنگی ہونا شروع ہو گئی تھیں۔

ک م/ ع ت(اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں