ترک تعلیمی نظام ایک بحرانی کیفیت کا شکار ہے، جہاں بچے معیاری تعلیم سے دور ہو رہے ہیں۔ ناقدین اس کی ذمہ داری ایردوآن حکومت پر عائد کرتے ہیں۔
اشتہار
ترکی میں حالیہ کچھ عرصے میں سینکڑوں کی تعداد میں امام خطیب اسکولز قائم ہوئے ہیں۔ ترکی میں گزشتہ کئی ہفتوں سے یہ بحث جاری ہے کہ بچوں کی نتائج پہلے جیسے کیوں نہیں۔ ترکی میں اس عوامی بحث کا آغاز اس وقت ہوا، جب چند ہفتے قبل وزارت برائے قومی تعلیم نے ایک مطالعاتی رپورٹ جاری کی۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ ترکی میں بچوں کی تعلیمی کارکردگی میں کمی دیکھی گئی ہے۔ خصوصاﹰ ریاضی اور ترک زبان کے شعبوں میں بچوں کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں بری ہے۔
بہت سے اپوزیشن رہنماؤں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ امام خطیب کہلائے جانے والے اسکولوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ اس مسئلے کی بنیادی وجہ ہے۔ ان اسکولوں میں مذہبی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، یعنی کمرہٴ جماعت میں اساتذہ کی توجہ قرآن اور حدیث پر مرکوز ہوتی ہے اور اسی وجہ سے دیگر مضامین میں بچے کم زور ہو رہے ہیں۔
ترکی میں ایردوآن حکومت میں کی جانے والی تعلیمی اصلاحات کے بعد مذہبی اسکولوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وزارت قومی تعلیم کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں مڈل تک کی تعلیم دینے والے ایسے اسکولوں کی تعداد ایک ہزار ننانوے سے بڑھ کر تین ہزار دو سو چھیاسی ہو چکی ہے، جب کہ امام خطیب نامی مذہبی مدرسوں کی تعداد پانچ سو سینتس سے بڑھ کر سولہ سو پانچ تک جا پہنچی ہے۔ اس وقت ترکی میں مجموعی طور پر مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد چھ لاکھ بیس ہزار ہے۔
ترکی میں ایردوآن حکومت کی جانب سے کی گئی تعلیمی اصلاحات کے تناظر میں ایسے مدرسے بنانے والوں کو بعض صورتوں میں سرکاری اسکول تک سونپ دیے گئے۔ جن میں کئی اسکول ان مذہبی مدرسوں میں بدلے جانے کے وقت والدین یا بچوں سے رائے تک طلب نہیں کی گئی۔
ترکی میں کئی والدین اس حکومتی فیصلے پر احتجاج بھی کر رہے ہیں۔ ان افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان حکومتی اصلاحات کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشانی غیر مذہبی گھرانوں کے بچوں کو ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بعض جگہوں پر سرکاری اسکولوں کے آدھے حصے مذہبی مدرسوں میں بدلے گئے ہیں، جب کہ ان مذہبی مدرسے کی ہر جماعت میں کم بچے، زیادہ صفائی اور فیس بھی کم ہے، تاکہ والدین بچوں کو عام اسکول سے مذہبی مدرسے میں منتقل کریں۔
ننھے ہاتھ، بھاری منافع: تُرکی میں چائلڈ لیبر
تعلیم کے بجائے مزدوری: تُرکی میں لاکھوں شامی تارکین وطن کے بچے اسکول نہیں جاتے۔ چائلڈ لیبر پر پابندی کے باوجود بہت سے بچے یومیہ بارہ گھنٹوں تک مزدوری کرتے ہیں۔ ترکی ميں سلائی کے ايک کارخانے کی تصویری جھلکیاں۔
تصویر: DW/J. Hahn
کام کا ڈھیر لگا ہوا ہے
خلیل کی عمر 13 سال ہے اور اس کا تعلق دمشق سے ہے۔ ترک شہر استنبول کے علاقے ’باغجیلار‘ میں واقع سلائی کے کارخانے میں خلیل ہفتے کے پانچ دن کام کرتا ہے۔ اس علاقے ميں سلائی کے بیشتر کارخانوں میں زيادہ تر خلیل کی طرح کے بچے ہی کام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ساتھ کام کرنے والے بچے
اس ورکشاپ میں سلائی مشینیں بلا ناغہ چلتی ہیں۔ یہاں کام کرنے والے پندرہ ملازمین میں سے چار بچے ہیں، جن کا تعلق شام سے ہے۔ ترکی میں ٹیکسٹائل کی صنعت کے شعبے میں وسیع پیمانے پر بچوں کی مزدوری کی صورت ميں غیر قانونی کام جاری ہے۔ نو عمر بچوں سے نہ صرف کم اجرت پر مزدوری کرائی جاتی ہے بلکہ کاغذات اور کسی بھی قسم کے تحفظ کے بغير کام کرایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
اسکول جانےسے محروم بچے
سوتی کے کپڑے کو چھانٹتے ہوئے 13 سالہ خلیل کہتا ہے، ’’میں مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتا۔‘‘ یہاں خواتین کے انڈر گارمنٹس بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ چھانٹنا، کاٹنا اور سینا، خلیل کے ساتھ ایک نوجوان خاتون بھی کام کرتی ہيں۔ خلیل اپنے آبائی ملک شام میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا لیکن خانہ جنگی کی باعث خلیل کو اپنا مکان اور سب کچھ چھوڑنا پڑا۔ اب خلیل اسکول جانے کے بجائے سلائی کے کارخانے میں کام کر رہا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
استحصال یا مدد؟
ترکی میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے۔ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو ملازمت دینے پر جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ اس بات سے کارخانے کا مالک بخوبی واقف ہے، اسی لیے وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ ’میں بچوں کو کام دیتا ہوں تاکہ وہ بھيک مانگنے سے بچ سکیں۔ مجھے معلوم ہے کہ بچوں کو کام دینے پر پابندی ہے۔ لیکن اس طرح سے میں ان کے اہلِ خانہ کی مدد کر رہا ہوں جو کے شاید اس مشکل صورتحال سے باہر نہیں نکل سکيں۔‘
تصویر: DW/J. Hahn
’امید کرتا ہوں کہ میں گھر واپس جا سکوں‘
مُوسیٰ کی عمر بھی 13 سال ہے۔ سلائی کے اس ورکشاپ میں زیادہ تر بچے شام کے شمالی صوبہ ’عفرین‘ کی کُرد آبادی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کام کے علاوہ موسیٰ کی کیا مصروفیات ہیں؟ وہ بتاتا ہے، ’’میں فٹ بال کھیلتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ شام میں دوبارہ امن بحال ہوجائے تاکہ ہم گھر واپس جا سکیں۔‘‘ موسیٰ شام واپس جا کر تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
سستی ملازمت
اس ورکشاپ میں روزانہ خواتین کے لیے ہزاروں انڈر گارمنٹس مختلف رنگ اور ناپ میں تیار کیے جاتے ہیں۔ ان ملبوسات کی قیمت صرف چند ترکش لیرا ہے۔ ترکی میں بچوں سے مزدوری کرانے کا مقصد چین کے مقابلے میں سستی لیبر کی تياری ہے۔ ترکی میں بچوں کو فی گھنٹہ 50 یورو۔سینٹ سے بھی کم اجرت ادا کی جاتے ہے جبکہ بچوں کے مقابلے میں بالغ مزدور دگنا کماتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ایک دن میں بارہ گھنٹے کام
آرس گیارہ سال کی بچی ہے اور گزشتہ چار ماہ سے کام کر رہی ہے۔ آرس کی والدہ فی الوقت حاملہ ہیں اور اس کے والد بھی ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ آرس کے دن کا آغاز صبح آٹھ بجے ہوتا ہے۔ آرس کی ڈیوٹی شب آٹھ بجے ختم ہوتی ہے۔ اس کو دن میں دو مرتبہ کام سے وقفہ لینے کی اجازت ہے۔ تنخواہ کی صورت میں آرس کو 700 ترکش لیرا ماہانہ ملتے ہیں جو تقریبا 153 یورو بنتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
تعلیم: عیش و عشرت کے مانند ہے
چونکہ آرس پیر سے جمعہ تک کام میں مصروف ہوتی ہے اس لیے وہ سرکاری اسکول نہیں جا سکتی۔ تاہم آرس ہفتے کے آخر میں ایک شامی سماجی ادارے کے زیرِ انتظام چلنے والے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہے۔ نصاب میں ریاضی، عربی اور ترکش زبان سکھائی جاتی ہے۔ اس سکول کے زیادہ تر اساتذہ کو بھی جنگ کی وجہ سے اپنا ملک ’شام‘ چھوڑنا پڑا تھا۔
تصویر: DW/J. Hahn
کلاس روم سے دوری
چار سے اٹھارہ سال کی عمر کے درمیان کے 70 سے زائد بچے اس چھوٹے سے شامی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بعض اوقات خواتین اساتذہ بچوں کے والدین کو قائل کرنے کے لیے ان کے گھر بھی جاتی ہیں۔ یہ اساتذہ والدین سے اپنے بچوں کو کم از کم ایک دن اسکول بھیجنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاکہ بچوں کو اپنا مستقبل سوارنے کا موقع مل سکے۔
تصویر: DW/J. Hahn
9 تصاویر1 | 9
ناقدین کا خیال ہے کہ ترکی میں بچوں کی بری تعلیمی کارکردگی کی وجہ یہی مذہبی مدرسے خصوصاﹰ امام خطیب نامی اسکولز ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ ترکی میں ایک مرکزی تعلیمی امتحانی نظام ہے اور اسے پاس کیے بغیر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ ممکن نہیں ہوتا جب کہ امام خطیب اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو یہ امتحان پاس کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ترکی وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ رواں برس ان اسکولوں سے فارغ التحصیل بچوں میں سے صرف 38 فیصد یہ مرکزی امتحان پاس کرنے اور جامعات میں داخلہ حاصل کر پانے میں کامیاب ہوئے۔