ترکی ميں آزادیٴ صحافت پر حملے اور يورپی يونين پر بڑھتا دباؤ
5 مارچ 2016ترک روزنامے زمان کے ہيڈ کوارٹر پر قبضے اور اس پر حکومتی سرپرستی قائم کرنے سے متعلق عدالتی حکم نامے کے خلاف آج بروز ہفتہ احتجاج کرنے والے مظاہرين کے خلاف حکام نے پلاسٹک کی گولياں چلائيں، آنسو گيس کے شيل برسائے اور تيز دھار پانی استعمال کيا۔ مظاہرين نے استنبول ميں اس اخبار کے دفتر کے باہر صدر رجب طيب ايردوآن کے خلاف نعرے بازی کی جبکہ پوليس نے دوسرے روز بھی مظاہرين کے خلاف طاقت کا استعمال جاری رکھا۔
دريں اثناء ايک روز تک بند رہنے کے بعد ترک اخبار زمان کا دفتر آج دوبارہ سے کھل گيا ہے۔ عدالتی حکم نامے کے تحت حکومت کی جانب سے عملے کی تعيناتی کے بعد زمان کے ہيڈکوارٹر ميں معمول کی سرگرمياں بحال ہو چکی ہيں۔ صدر رجب طيب ايردوآن پر کڑی تنقيد کرنے والے اس اخبار کے دفتر پر گزشتہ روز حکام نے قبضہ کر ليا تھا۔ تاحال يہ واضح نہيں کہ يہ کارروائی کس ليے کی گئی۔ ايردوآن کے سياسی حريف فتح اللہ غلن کے ساتھ مبينہ روابط رکھنے والے اس اخبار کی بندش کے احکامات استنبول کی استغاثہ کی جانب سے جمع کرائی جانے والی درخواست پر ديے گئے تھے۔
امريکا اور يورپی يونين کے علاوہ انسانی حقوق سے منسلک ادروں نے بھی آزادیٴ صحافت پر حملے کی شديد مذمت کی ہے۔ پير کے روز ترک وزير اعظم احمد داؤد اولو برسلز ميں يورپی يونين کے رہنماؤں کے ساتھ ايک اہم سمٹ ميں شرکت کرنے والے ہيں اور ايسے ميں يہ پيش رفت قابل تشویش ہے۔ يورپی يونين ميں توسيع سے متعلقہ امور کے نگران کمشنر يوہانس ہان کے بقول وہ اس پيش رفت پر کافی فکر مند ہيں۔ انہوں نے کہا کہ يہ اقدام انقرہ حکومت کے بہت سے اچھے کاموں پر پانی پھير دينے کے مترادف ہے۔ ہان نے مزيد کہا کہ ايک عرصے سے يورپی يونين ميں شموليت کے خواہاں ملک ترکی کو اپنے ہاں آزادیٴ رائے اور صحافت کو يقينی بنانا ہو گا۔
امريکا کی جانب سے بھی کہا گيا ہے کہ عدالتی حکم نامہ ترک حکومت کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے اداروں کو قانونی اور عدالتی طور پر نشانہ بنانے کے سلسلے کی ايک اور پريشان کن پيش رفت ہے۔ محکمہٴ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کہا، ’’ہم ترک حکام پر زور ديتے ہيں کہ وہ اپنے آئين ميں بھی شامل جمہوريت کے عالمی سطح پر تسليم شدہ تقاضوں پر عمل درآمد کو يقينی بنائيں، جن ميں آزادیٴ اظہار رائے اور بالخصوص آزادیٴ صحافت شامل ہيں۔‘‘
انسانی حقوق کے ليے سرگرم تنظيم ايمنسٹی انٹرنيشنل اور صحافتی آزادی سے متعلق گروپوں نے بھی حاليہ پيش رفت کی سخت الفاظ ميں مذمت کی ہے۔