ترکی ميں حالات بہتر، مہاجرين نے يورپ جانا چھوڑ ديا
عاصم سلیم
31 جولائی 2017
ايک رپورٹ کے مطابق ترکی اور يورپی يونين کے مابين اختلافات کے باوجود مہاجرين کی يورپ کی طرف غير قانونی ہجرت روکنے کے حوالے سے ڈيل پر عملدرآمد جاری ہے۔ اس کی ايک بڑی وجہ ترکی ميں مہاجرين کو فراہم کردہ سہوليات ميں بہتری ہے۔
اشتہار
ترکی ميں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومت کا کريک ڈاؤن، ترک شہريوں کے ليے يورپی يونين ميں بغير ويزے سفر کا معاملہ اور ديگر کئی وجوہات کی بناء پر ترکی اور يورپی يونين کے مابين پچھلے ايک سال ميں کئی اختلافات سامنے آئے ہيں۔
تاہم ان تمام تر اختلافات کے باوجود فريقين کے درميان مہاجرين کی ترکی کے راستے يورپی يونين کے رکن ممالک کی طرف غير قانونی ہجرت روکنے سے متعلق معاہدے پر عمل در آمد بخوبی جاری ہے اور مطلوبہ نتائج بھی برآمد ہو رہے ہيں۔
گزشتہ برس مارچ ميں طے پانے والے اس معاہدے پر حال ہی ميں جاری ہونے والی يورپی کميشن کی چھٹی رپورٹ کے مطابق ترکی سے بحيرہ ايجيئن کے راستے يونان پہنچنے والے تارکين وطن کی تعداد ميں خاطر خواہ کمی نوٹ کی گئی ہے۔
ترکی سے يورپ کا رخ کرنے والے تارکين وطن کی تعداد ميں کمی کی ايک اہم وجہ ترکی ميں ان تارکين وطن کے ليے موجود سہوليات ميں بہتری ہے۔ انقرہ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 3.4 ملين پناہ گزين ترکی ميں رہائش پذير ہيں۔ يورپی يونين کے ساتھ طے پانے والی ڈيل کے تحت ملنے والی رقوم سے ترکی ميں مہاجرين کے ليے سہوليات کی فراہمی اور رہائش کے انتظامات کو يقينی بنايا جا رہا ہے اور ايسے کئی منصوبوں پر اس وقت بھی کام جاری ہے۔
يورپی يونين نے ترکی کو اس مقصد کے ليے تين بلين يورو بطور امداد دينے ہيں۔ يورپی کميشن نے اپنی ايک حاليہ رپورٹ ميں اس امر کی تصديق کی کہ تين ملين سے زائد شامی، عراقی اور ديگر ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزينوں کی ضروريات پوری کرنا انقرہ حکومت کی ترجيح رہی ہے اور اسی سبب يورپ ميں مہاجرين کی آمد گھٹی ہے۔
يورپی کميشن کی رپورٹ ميں مزيد بتايا گيا ہے کہ 2016ء اور 2017ء کے ليے تين بلين يورو ميں سے اب تک 2.9 بلين يورو مختلف منصوبوں کے ليے مختص کيے جا چکے ہيں۔ ان ميں سے ڈيڑھ بلين سے زيادہ ماليت کے سينتاليس ترقياتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ترکی کو اب تک 811 ملين يورو فراہم کيے جا چکے ہيں۔
اس کے علاوہ مہاجرين کے ليے طبی سہوليات کی فراہمی، زبان سيکھنے کے کورسز اور بچوں کے ليے اسکول جانے کی اجازت اور سہولت ميں بہتری آئی ہے۔ يہ تمام چيزيں انسانی بنيادوں پر امداد کے يورپی يونين کی تاريخ کے سب سے بڑے منصوبے ’ايمرجنسی سوشل سيفٹی نيٹ‘ (ESSN) کی وجہ سے ممکن ہو سکی ہيں۔
دريں اثناء سمندری راستوں پر مہاجرين کو تلاش کرنے اور روکنے کے حوالے سے بھی اقدامات بڑھے ہيں۔ رپورٹ کے مطابق اس سلسلے ميں يورپی بارڈر ايجنسی اور کوسٹ گارڈز کے علاوہ ترک کوسٹ گارڈز بھی کافی سرگرم رہے ہيں۔ علاوہ ازيں ترکی کی جانب سے قانون سازی کی بدولت انسانوں کے اسمگلروں کو بھی شديد مشکلات درپيش ہيں اور تارکين وطن کو غير قانونی انداز ميں يورپ تک پہنچانےکے ليے اب انہيں کئی کئی مرتبہ کوشش کرنی پڑتی ہے، جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔
دوسری جانب يورپی کميشن کی رپورٹ ميں کئی چيلنجز کا بھی تذکرہ کيا گيا ہے۔ يونان ميں اب بھی واپس ترکی بھيجے جانے والوں کے مقابلے ميں زيادہ مہاجرين کی آمد ہو رہی ہے۔ ڈيل کے تحت عملدرآمد شروع ہو جانے کے بعد يونان پہنچنے والے تمام مہاجرين کو واپس ترکی بھيجا جانا تھا۔ اب تک دو ہزار سے بھی کم مہاجرين کو واپس ترکی روانہ کيا گيا ہے۔
ایلان سے اومران تک مہاجرت کا سفر، مصائب ختم نہیں ہوئے
سن دو ہزار پندرہ اور سن دو ہزار سولہ میں یورپ میں بڑے پیمانے پر تارکین وطن کی آمد کی تصاویر دنیا بھر میں گردش کرتی رہیں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہوئیں۔ تاہم مہاجرین کے مصائب کا مکمل احاطہ آج تک نہیں کیا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
یونانی جزائر میں پڑاؤ
گزشتہ دو برسوں میں لاکھوں افراد جنگوں اور تنازعات کے باعث اپنے ممالک کو چھوڑ کر ترکی کے ذریعے یونان پہنچے۔ یونانی جزائر لیبسوس، شیوس اور ساموس میں اب بھی دس ہزار کے قریب تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں اس سال جنوری سے مئی تک چھ ہزار نئے پناہ گزین بھی پہنچے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
یورپ کی جانب پیدل سفر
سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں ایک ملین سے زائد تارکین وطن نے ترکی اور یونان کے بعد ’بلقان روٹ‘ پر پیدل سفر کرتے ہوئے مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش کی۔ مہاجرین کا یہ بہاؤ اُس وقت تھما، جب اس راستے کو باقاعدہ اور مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Mitchell
ایلان کُردی
اس تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ستمبر دو ہزار پندرہ میں تین سالہ شامی بچے ایلان کردی کی لاش ترکی کے ایک ساحل پر ملی۔ یہ تصویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر مہاجرین کے بحران کی علامت بن گئی، جس کے بعد یورپ کے لیے اس بحران کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
بلقان روٹ کی بندش
ہزاروں افراد نے یہ جاننے کے بعد کہ اب بلقان روٹ زیادہ عرصے تک کھلا نہیں رہے گا، کروشیا میں پہلے سے بھری ہوئی بسوں اور ٹرینوں میں سوار ہونے کی کوشش کی۔ اکتوبر سن دو ہزار پندرہ میں ہنگری نے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. J. Mitchell
ہنگری کی خاتون صحافی
ستمبر 2015ء میں ہنگری کی صحافی پیٹر لازسلو اس وقت عالمی خبروں میں آئی تھیں، جب میڈیا پر ایک فوٹیج جاری ہوئی تھی، جس میں وہ سرحد عبور کرنے والے ایک مہاجر کو ٹانگ اڑا کر گراتی ہیں، جب کہ یہ مہاجر اس وقت اپنے بازوؤں میں ایک بچہ بھی اٹھائے ہوئے تھا۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
مہاجرین پر تشدد
مارچ سن دو ہزار سولہ میں بلقان روٹ کی بندش کے بعد بلقان کی ریاستوں کے سرحدی راستوں پر افسوسناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران مہاجرین پر ظالمانہ تشدد کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
پانچ سالہ شامی بچے اومران کی یہ تصویر جب سن دو ہزار سولہ میں منظر عام پر آئی تو دنیا بھر میں لوگ صدمے کی کیفیت میں آ گئے۔ شامی صدر بشار الاسد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس اس تصویر کو پروپیگنڈا مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Aleppo Media Center
نیا لیکن انجان گھر
یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر کھینچی گئی یہ تصویر ایک شامی مہاجر کی ہے، جو برستی بارش میں اپنی بیٹی کو اٹھا کر لے جا رہا تھا، اس امید پر کہ اُس کے خاندان کو یورپ میں اچھا مستقبل ملے گا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
مدد کی امید
جرمنی تارکین وطن کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔ جرمن چانسلر میرکل پناہ گزینوں کے لیے آئیکون کا درجہ رکھتی ہیں۔ تاہم اب بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے بعد جرمن حکومت نے مہاجرت کے حوالے سے قوانین کو سخت بنا دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
بحیرہ روم میں اموات
جنگوں، تنازعات اور غربت سے راہ فرار اختیار کر کے بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ پہنچنے کے خواہشمند تارکین وطن خطرات سے پُر سمندری راستے بھی اختیار کرتے ہیں۔ رواں برس اب تک اٹھارہ سو، جب کہ سن دو ہزار سولہ میں پانچ ہزار مہاجرین غیر محفوظ کشتیوں پر بحیرہ روم کے سفر کے دوران اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔