ترکی ميں جمعرات اور جمعے کی درميانی شب پيش آنے والے ايک ٹريفک حادثے ميں ايک درجن سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہيں، جن ميں پاکستانی تارکين وطن بھی شامل ہيں۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی استنبول سے جمعہ تيس مارچ کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ترکی کے مشرقی حصے ميں ايک منی بس حادثے کا شکار ہو گئی ہے جس کے نتيجے ميں کم از کم سترہ تارکين وطن ہلاک ہو گئے ہيں۔
يہ واقعہ اغدير اور کارس کے درميان واقع سڑک پر جمعرات اور جمعے کی درميانی شب پيش آيا۔ اس حادثے کی اطلاع ترکی کی سرکاری نيوز ايجنسی انادولو نے جاری کی ہے۔ واقعے ميں چھتيس مہاجرين زخمی بھی ہوئے ہيں، جن ميں سے چند ايک کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے اور اسی سبب، ہلاک شدگان کی تعداد ميں اضافے کا امکان بھی موجود ہے۔
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔
تصویر: Privat
11 تصاویر1 | 11
اطلاعات ہيں کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں ميں پاکستانی، افغان ايرانی تارکين وطن شامی ہيں۔ امکاناً متاثرہ بس ميں سوار مہاجرين ايران کے راستے ترکی ميں داخل ہوئے تھے۔
حادثے کا شکار ہونے والی منی بس ميں چودہ افراد کی گنجائش تھی ليکن اس پر پچاس افراد سوار تھے۔ ارمينيا کی سرحد کے قريب يہ بس گزشتہ رات بارہ بجے کے قريب ايک پول سے جا ٹکرائی، جس کے بعد اس ميں آگ بھی لگ گئی۔ واقعے کی تحقيقات شروع کر دی گئی ہيں۔
مزيد تفصيلات کے مطابق چند مہاجرين حادثے ميں ہلاک ہوئے جبکہ ديگر چند منی بس ميں آتش زدگی کے سبب باہر گر کر ايک ٹرک سے ٹکر لگنے کے سبب جاں بحق ہوئے۔ دوسرا ٹرک بھی غير قانونی مہاجرين سے بھرا ہوا تھا۔ پوليس نے اس پر سوار تيرہ تارکين وطن اور ڈرائيور کو حراست ميں لے ليا ہے۔
صوبائی گورنر نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کيا ہے۔