1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی ميں ہنگامی حالت کا خاتمہ، اپوزيشن پھر بھی نالاں

18 جولائی 2018

ترکی ميں سن 2016 ميں ناکام فوجی بغاوت کی کوشش کے بعد نافذ کردہ ايمرجنسی حالت کو قريب دو برس بعد بدھ اٹھارہ جولائی کو ختم کيا جا رہا ہے۔ اپوزيشن قوتوں کو ليکن خدشہ ہے کہ متنازعہ آئينی اقدامات کا سلسلہ جاری رہے گا۔

Türkei Präsident Recep Tayyip Erdogan
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak

ترکی ميں ہنگامی حالت مقامی وقت کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درميانی شب ايک بجے ختم ہو رہی ہے۔ انقرہ حکومت نے اس کی مدت ميں توسيع کے بارے ميں کوئی اعلان نہيں کيا اور يہی وجہ ہے کہ يہ ہنگامی حالت اب اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ تاہم ملکی اپوزيشن اب بھی کافی نالاں دکھائی ديتی ہے، جس کی وجہ حکومت کی جانب سے پارليمان ميں پيش کيا جانے والا ايک مجوزہ قانون ہے۔ اپوزيشن کے مطابق نيا قانون ايمرجنسی نظام کے سب سے سخت اور متنازعہ معاملات کو سرکاری شکل دينے کی کوشش ہے۔

ترکی ميں صدر رجب طيب ايردوآن کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی ناکام کوشش کے بعد دارالحکومت انقرہ اور ديگر کئی بڑے شہروں ميں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ اس پيش رفت کے پانچ دن بعد بيس جولائی سن 2016 کے روز صدر ايردوآن نے ايمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر ديا تھا۔ عموماً ہنگامی حالت کا نفاذ تين ماہ تک جاری رہتا ہے ليکن اس ميں سات مرتبہ توسيع کی گئی۔

ترک حزب اختلاف انقرہ حکومت کی جانب سے پارليمان ميں پيش کردہ انسداد دہشت گردی کے مجوزہ قانون پر کافی برہم دکھائی ديتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے حکومت نواز اداروں پر اسے ’اينٹی ٹيرر‘ کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ مرکزی اپوزيشن جماعت ری پبلکن پيپلز پارٹی (CHP) کے مطابق اس بل کی شقيں ايمرجنسی حالت کے مساوی ہی ہيں۔ جماعت کے ايک سينئر رکن اور پارليمان ميں نمائندگی کرنے والے اوزگور اوزل نے کہا، ’’اس بل کے مسودے ميں ہنگامی حالت کی مدت تين ماہ کے بجائے تين برس تجويز کی گئی ہے۔ بظاہر ايسا دکھائی دے رہا ہے کہ ايمرجنسی ختم کی جا رہی ہے جب کہ در حقيقت يہ اس ميں توسيع ہی کر رہے ہيں۔‘‘ علاوہ ازيں نئے مجوزہ قانون ميں بہت سی ديگر متنازعہ شقيں بھی شامل ہيں۔

ترکی ميں صدراتی نظام رائج ہے اور صدر رجب طيب ايردوآن بے پناہ اختيارات کے حامل ہيں۔

ع س / ع ت، نيوز ايجنسياں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں