1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتترکی

ترکی میں افراط زر کی شرح چون فیصد تک بڑھ گئی، رپورٹ

3 مارچ 2022

ترکی میں افراط زر کی شرح گزشتہ دو عشروں کے مقابلے میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ پہلے سے ہی مشکلات کے شکار گھرانوں کے لیے روزمرہ کی اشیائے ضرورت خریدنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔

Türkei | Marktstände in Istanbul
تصویر: Tolga Ildun/ZUMA/picture alliance

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق  فروری میں افراط زر کی شرح میں تقریباﹰ پانچ فیصد اضافہ ہوا اور اس طرح افراط زر کی سالانہ شرح بڑھ کر 54.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

ترک حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ مہنگائی ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ریکارڈ کی گئی، جہاں تقریبا 75 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اسی طرح اشیائے خوراک کی قیمتوں میں تقریباﹰ 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ترک حکومت نے گزشتہ برس شرح سود میں کمی کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد سے ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی ہونا شروع ہوئی۔ سن دو ہزار اکیس میں لیرا کی ڈالر کے مقابلے میں قدر 44 فیصدکم ہوئی۔

تصویر: Tolga Ildun/ZUMA Wire/imago images

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے مہنگے قرضے لینے کی شدید مخالفت کی تھی جبکہ مرکزی بینک نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود شرح سود میں پانچ فیصد کی کمی کر دی تھی۔ یہ دونوں اقدام ہی مارکیٹ میں رائج معاشی سوچ کے متضاد ہیں۔

عوام کو کچھ ریلیف دینے کی کوشش میں حکومت نے پچھلے مہینے بنیادی خوراک پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس میں ایک فیصد کمی کی تھی جبکہ اس سے پہلے آٹھ فیصد ایسی ہی ایک کمی کا اعلان کیا گیا تھا۔

اسی طرح ترک حکومت نے بجلی کے بلوں میں کمی لانے کا بھی اعلان کیا تھا تاکہ کاروباری پہہ چل سکے۔

یورپ اور امریکا میں بھی مہنگائی عروج پر

تاہم مہنگائی صرف ترکی میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کا ایک بڑا مسئلہ بن کر ابھری ہے۔ کورونا وباء اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران نے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

یورو کرنسی استعمال کرنے والے انیس ممالک میں فروری کے مہینے میں افراط زر کی شرح تقریباﹰ چھ فیصد رہی جبکہ امریکہ میں جنوری  کے دوران اشیاء کی قیمتیں ساڑھے سات فیصد تک بڑھیں۔ ان ممالک میں بھی گزشتہ چالیس برسوں میں مہنگائی کی یہ تیز ترین شرح تھی۔

یوکرین اور روس کے مابین جنگ کی وجہ سے یورپی ممالک میں گیس کی قیمتیں ان دنوں آسمان کو چھو رہی ہیں۔

 ا ا / ع ت ( اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں