ترکی میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی مدت حراست میں توسیع
18 جولائی 2017مقامی ذرائع کے مطابق استغاثہ نے کل دس افراد کی حراست میں توسیع کی درخواست کی تھی تاہم چار دیگر کارکنوں کو رہا کر دیا گیا۔ عالمی برادری نے ایمنسٹی کی ترک شاخ کی ڈائریکٹر ایدیل ایسر کی گرفتاری پر شدید تنقید کرتے ہوئے تمام کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایدیل ایسر کو پانچ جولائی کے روز سات دیگر کارکنوں کے ہمراہ اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا، جب وہ دو غیرملکی ٹرینرز کے ہمراہ استنبول کے جنوبی جزیرے بویوک آدا میں ایک ڈیجیٹل سکیورٹی اینڈ مینجمنٹ ورکشاپ میں شریک تھیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ترک شاخ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’چھ افراد کو حراست میں ہی رکھنے کا کہا گیا ہے جبکہ چار کارکنوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔‘‘ اس بیان کے مطابق ان تمام افراد پر رکن بنے بغیر ایک دہشت گرد تنظیم کے ساتھ تعاون کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
ان کارکنوں کی گرفتاری کے بعد بین الاقوامی سطح پر بھی ترک حکومت اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ ناقدین کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ترکی میں آزادی رائے کو محدود کیا جا رہا ہے۔ جن دس افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، ان میں سے آٹھ کا تعلق ترکی سے ہی ہے۔ ان میں ترک ویمن کولیشن کی اکنور اُستن اور ہیومن رائٹس ایجنڈا ایسوسی ایشن کے ویلی آچو بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب ڈیجیٹل انفارمیشن ورکشاپ کے دو غیرملکی ٹرینرز میں سے ایک کا تعلق سویڈن سے ہے جبکہ دوسرے کا جرمنی سے۔ ان دونوں کو بھی فی الحال حراست میں ہی رکھا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ترکی میں ریسرچر اینڈریو گارڈنر نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ ایک سیاسی مقدمہ ہے اور ترکی میں انسانی حقوق کا دفاع کرنا اب ایک جرم بن چکا ہے۔‘‘
’گولن سے روابط‘: ترکی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ کی گرفتاری
گارڈنر کا مزید کہنا تھا کہ آج منگل اٹھارہ جولائی کے فیصلے کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس ملک میں اب کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ ان کارکنوں کی گرفتاری کے بعد ترک صدر نے کہا تھا کہ یہ لوگ حکومتی مفادات کے خلاف کام کر رہے تھے اور انہوں نے ان کارکنوں کا موازنہ گزشتہ برس ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں شامل عناصر سے کیا تھا۔
ترکی میں گزشتہ جولائی کی اس ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے حکومت اب تک ایک لاکھ سے ز ائد سرکاری ملازمین کو یا تو ان کی نوکریوں سے برخاست کر چکی ہے یا انہیں معطل کیا جا چکا ہے جبکہ ہزارہا افراد گرفتار بھی کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی ناکام فوجی بغاوت کے چند روز بعد ملک میں ہنگامی حالت بھی نافذ کر دی گئی تھی، جس کی مدت میں اب تک تین مرتبہ توسیع کی جا چکی ہے۔
ان اقدامات اور سیاسی مخالفین کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کی وجہ سے انسانی اور شہری حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کئی ملکی اور بین الاقوامی اداروں کی طرف انقرہ حکومت پر شدید تنقید بھی کی جاتی ہے۔