1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں آوارہ کتوں کی آبادی پر قابو پانے کے لیے بل منظور

30 جولائی 2024

جانوروں کے تحفظ اورحقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ اس متنازعہ بل کی پارلیمنٹ سے منظوری کی شدید مخالفت کرتے آئے ہیں۔ سرکاری اندازوں کے مطابق ترکی کی گلیوں میں گھومنے والے آوارہ کتوں کی تعداد چالیس لاکھ ہے۔

سرکاری اندازوں کے مطابق ترکی کی گلیوں میں گھومنے والے آوارہ کتوں کی تعداد چالیس لاکھ ہے
سرکاری اندازوں کے مطابق ترکی کی گلیوں میں گھومنے والے آوارہ کتوں کی تعداد چالیس لاکھ ہےتصویر: Yasin Akgul/AFP

ترکی کی پارلیمنٹ نے آج منگل کے روز ملک بھر میں لاکھوں آوارہ کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے ایک متنازعہ بل کی منظوری دے دی۔ جانوروں کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں نے ان خدشات کی بنیاد پر اس بل کی مخالفت کی ہے کہ اس سے جانوروں کو مارنے یا گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی پناہ گاہوں میں رکھ کر نظر انداز کیے جانے کا راستہ کھل جائے گا۔

گزشتہ چند ہفتوں سے ترکی بھر میں اس قانون کے خلاف مظاہرےکیے جا رہے تھے۔ جانوروں کے حقوق کے موجودہ قانون میں ترامیم بلدیاتی اداروں کو  آوارہ کتوں کو جانوروں کی پناہ گاہوں میں رکھنے یا انہیں ہلاک کرنے سمیت کئی طرح کے اقدامات کرنے کا اختیار دیتی ہیں۔ یہ ترامیم جانوروں کے ڈاکٹروں کے ذریعے ایسے کتوں کو جو بیمار ہوں یا جن کی درجہ بندی جارحانہ یعنی ''انسانوں اور جانوروں کی صحت کے لیے خطرے‘‘ کے طور پر کی گئی ہو، کو ہلاک کرنے کی اجازت بھی دیتی ہیں۔

ترک پارلیمان نے جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی سخت مخالفت کے باجود آوارہ کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے بل کی منظوری دی تصویر: ANKA

جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو خدشہ ہے کہ اس قانون کی آڑ میں زیادہ تر جانور ہلاک کر دیے جائیں گے، اس سلسلے میں وہ ترکی میں جانوروں کی پناہ گاہوں کے بنیادی ڈھانچے کو ناکافی اور غیر منظم قرار دیتے ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ترکی میں ایک اندازے کے مطابق 40 لاکھ آوارہ کتے ہیں، لیکن جانوروں کی پناہ گاہوں میں صرف ایک لاکھ کے قریب کتوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔

ان نئی قانونی ترامیم میں یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ بلدیاتی اداروں کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ 2028 کے آخر تک ایسے کتوں کو رکھنے کے لیے کافی  جگہ کا انتظام کر لیا جائے۔ ایسا کرنے میں ناکامی کی صورت میں متعلقہ اہلکاروں کو دو سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہیتاپ کی نائب چیئرپرسن صنم دیمیرل اجار نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ یہ شرط اس قانون کے نفاذ میں ''افراتفری‘‘ کا باعث بنے گی۔ اجار کو خدشہ ہے کہ کافی رہائشی سہولیات کی فراہمی کا عمل مکمل ہونے سے قبل صحت مند جانوروں کو بھی مار دیا جائے گا۔

ش ر ⁄ م م (ڈی پی اے)

’بوجی‘ استنبول کا سوشل میڈیا اسٹار کتا

03:00

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں