ترکی: توانائی کی قیمتوں میں اضافہ، مہنگائی عروج پر پہنچ گئی
4 اپریل 2022
ترکی میں خوراک، ٹرانسپورٹ اور توانائی کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے کے سبب شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ملک میں افراطِ زر کی شرح گزشتہ دو عشروں کے مقابلے میں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
اشتہار
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مارچ میں افراطِ زر کی شرح میں تقریبا ساڑھے پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس طرح افراط زر کی سالانہ شرح بڑھ کر 61.14 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ شرح گزشتہ بیس سالوں کے مقابلے میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
ترک حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ قمیتوں میں اضافہ اجناس اور توانائی کے شعبوں میں ہوا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق ترکی میں یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ، کورونا وبا اور گزشتہ سال ملکی کرنسی لیرا کی گراوٹ کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
واضح رہے ترک حکومت نے گزشتہ برس شرح سود میں کمی کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد سے ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی ہونا شروع ہوئی تھی۔
ترکی کے شماریاتی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ہر ماہ کنزیومر پرائس میں 5.46 فیصد اضافہ ہو رہا ہے جبکہ نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک سروے میں 5.7 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں افراطِ زر کی سالانہ شرح 61.5 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔
سرمایہ کاری کی یورپی کمپنی بلیو بے ایسٹ مینجمنٹ سے منسلک ٹِم ایش کے مطابق ترکی کے مرکزی بینک کی پالیسیاں مہنگائی کو روکنے میں کارآمد ثابت نہیں ہورہی ہیں۔ ان کے بقول، ''میں سمجھتا ہوں کہ عمومی خیال یہی ہے کہ سی آر بی ٹی کی غیرروایتی پالیسی افراط زر کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘‘ خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات چیت میں ایش نے مزید کہا کہ یوکرین میں جنگ ترکی کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔
گزشتہ برس ڈالر کے مقابلے میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں چوالیس فیصد کمی ہوئی تھی جبکہ امسال اس میں مزید دس فیصد کمی نوٹ کی گئی ہے۔
تجارتی خسارے میں اضافہ
انقرہ حکومت نے کہا ہے کہ اس کے نئے اقتصادی پروگرام کے ذریعے افراطِ زر کی شرح آئندہ برس سِنگل ہندسوں میں آجائے گی۔ اس پروگرام کے تحت ملک میں پیداوار اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے کم شرحِ سود کو ترجیح دینا شامل ہے تاکہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کا ہدف حاصل کیا جاسکے۔
ترکی میں افراط زر کی اونچی شرح، خاتمہ جلد دکھائی نہیں دیتا
03:08
دریں اثناء تازہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تجارتی خسارہ ہر سال بڑھتے بڑھتے مارچ میں 77 فیصد یا 8.24 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ توانائی کی درآمدات کی قدر میں 156 فیصد اضافے کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ کے ہدف کو حاصل کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔
بوروم چیکچی نامی ترکش کنسلٹنگ کمپنی کے بانی ہالوک بوروم چیکچی کہتے ہیں کہ افراطِ زر کی شرح 70 سے 75 فیصد تک پہنچ سکتی ہے، پھر چاہے فی الحال لیرا کی موجودہ قدر میں کمی نہ ہو، لیکن سال کے آخری مہینوں میں اس میں کمی ہوسکتی ہے۔ ان کے بقول، ''سی بی آر ٹی کے لیے اپنی لچکدار مانیٹری پالیسی کے مؤقف کو برقرار رکھنا بالکل بھی آسان نہیں ہوگا۔‘‘
اشتہار
دنیا بھر میں مہنگائی کا طوفان
ترکی میں ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں اضافے کے سبب مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں پٹرول کی قیمتوں میں 13.29 فیصد اور تعلیم کے اخراجات میں 6.55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے نتیجے میں حالیہ مہینوں کے دوران عوامی احتجاج بھی شدت اختیار کر رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی سالانہ قیمتوں میں 99.12 فیصد اضافہ ہوا جبکہ خوراک اور غیر الکحل مشروبات کی قیمتوں میں 70.33 فیصد مہنگائی ہوئی ہے۔
ترک لیرا کی قدر کم، بلغاریہ اور یونان کے شہریوں کی موج
02:08
This browser does not support the video element.
تاہم مہنگائی صرف ترکی میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ پہلے کورونا وباء کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران نے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اب یوکرین جنگ کے نتیجے میں روس پر عائد مغربی پابندیوں کی وجہ سے توانائی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ترکی ملکی توانائی کی تمام ضروریات مکمل طور پر درآمد کرتا ہے۔
ع آ / ع ح (روئٹرز)
ترک لیرا کا بحران ہے کیا؟
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ترکی کو قرضوں اور مالی ادائیگیوں کے بحران کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ ترک کرنسی اپنے ان بحرانی حالات تک کیسے پہنچی۔
تصویر: picture-alliance/A.Gocher
ایک واضح تصویر
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Mc Grath
خسارا پورا کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ترکی کو روایتی طور پر روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات و درآمدات کے درمیان پیدا مالی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سن 2008 میں امریکا اور یورپ میں پائے جانے والے مالی بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کے لیے ترکی جیسے ممالک کی ضرورت تھی۔
تصویر: AP
ادھاری شرح پیداوار
بین الاقوامی سرمایے کی قوت پر ترکی کے مالی خسارے کو کم کرنے کے علاوہ بھاری حکومتی اخراجات کو جاری رکھنے اور اداروں کو مالی رقوم کی فراہمی کی گئی۔ قرضوں پر انحصار کرتی شرح پیداوار نے ترک اقتصادیات کو قوت فراہم کی اور حکومت کی مقبولیت میں اضافے کے لیے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا۔ کسی بھی مقام پر اس تیز عمل کو قدرے کم رفتار دینے کی ہمت حکومتی ایوانوں سے سامنے نہیں آئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
ابھرتی اقتصادیات کے تشخص میں کمی
سرمایہ کاروں نے حالیہ کچھ عرصے سے بتدریج ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں سے اپنے سرمایے کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں زورآور ترقی کے بعد امریکا کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ اور آسان مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ اس بنیادی فیصلے سے امریکی ڈالر کی قدر بلند ہوئی اور دوسری جانب ترک لیرا کی قدر گر گئی، اس نے ترک معاشی افزائشی عمل کو بھی روک دیا۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
ایردوآن پر عوامی اعتماد میں کمی
ابھرتی اقتصادیات میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی انتہائی زیادہ ہونے پر عالمی معاشی منظر پر نمایاں بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا ایردوآن حکومت میں اقتصادی بدنظمی خیال کی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایردوآن اقتصادی پالیسیوں میں جدت پر یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
ٹرمپ کے ٹویٹ نے ہلچل پیدا کر دی
دس اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ بظاہر یہ محصولات کم نوعیت کے ہیں لیکن کے اثرات کا حجم بہت وسیع ہے یعنی ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس فیصلے نے ترک اقتصادیات میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا اپنی حیثیت کھو رہا ہے۔
تصویر: Twitter/Trump
دوستی سے دشمنی
امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتاری اور جیل میں مقید رکھنے نے ترک امریکی تعلقات کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شامی کردوں کی امریکی حمایت بھی ہے۔ دیگر نزاعی معاملات میں انقرہ حکومت کی روس سے میزائل نظام کی خرید اور امریکا کا جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا بھی اہم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lemarque
فرد واحد کی حکمرانی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس جون کے بعد تیس فیصد کی کمی اور بازارِ حصص میں مالی بحران پیدا ہوا۔ اسی ماہِ جون میں رجب طیب ایردوآن نے مئی کے انتخابات کے بعد انتہائی قوت اور اختیارات کے حامل صدر کا منصب سنبھالا۔ اس مطلق العنانیت نے ترکی کو اپنے یورپی اتحادیوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel
ترک صدر کا داماد: البیراک
جون میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے وزارت مالیات کسی ٹیکنو کریٹ کو دینے کے بجائے اپنے داماد بیرات البیراک کوسونپ دی۔ ترک وزارت مالیات کے دائرہٴ کار و اختیارات میں بھی ایردوآن کے حکم پر اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ترک مرکزی بینک کی آزادی کو محدود کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/M. Alkac
’اقتصادی جنگ‘
ترک صدر ایردوآن کے اعتماد میں ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ترکی کو کمزور کرنے کے اقدامات کو ’اقتصادی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ انٹرنینشل مانیٹری فنڈ سے مدد طلب کرنے یا شرح سود میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کی جگہ وہ زوردار تقاریر پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔