ترکی میں ’جہاد ‘ درسی نصاب میں شامل، علویوں کو تشویش
صائمہ حیدر
18 اگست 2017
ترکی کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ’علویوں‘ میں اس خبر سے بے چینی پائی جاتی ہے کہ ترک اسکولوں کے نصاب میں جہاد کے موضوع کو شامل کیا جا رہا ہے۔ انقرہ حکومت کے مطابق اس موضوع کے تحت باطنی روحانی جد وجہد کی تعلیم دی جائے گی۔
اشتہار
سیاسی ہلچل کو ختم کرنے اور اپنی طاقت کو مستحکم بنانے کے لیے ترک صدر رجب طیب ایردوان نے اپنے بعض زیادہ آزاد خیال عزائم کو بالائے طاق رکھ چھوڑا ہے۔ ترک صدر کا جھکاؤ جیسے جیسے سخت گیر قوم پرستوں اور اسلام پسندوں کی طرف بڑھ رہا ہے، دو کلیدی منصوبے ، ملک کی سب سے بڑی نسلی اقلیت یعنی کردوں کے ساتھ امن عمل اور سب سے بڑی مذہبی اقلیت یعنی علویوں کومواقع دینا، سرد خانے میں پڑے ہیں۔
ترکی کی حکومت رواں سال ستمبر سے جہاد کے موضوع کو تعلیمی نصاب میں ایک پائلٹ پروگرام کے حصے کے طور پر متعارف کرا رہی ہے۔ اس کے بدلے میں ارتقاء کے مضمون کو نصاب سے خارج کر دیا جائے گا۔
اس اقدام نے ملک میں علویوں کو چونکا کر رکھ دیا ہے جو ترکی کی اسّی ملین آبادی کا بیس فیصد ہیں۔ ایک علوی گروپ کے صدر ایردوان ڈونر کا کہنا ہے،’’ اسکولوں میں جہاد کی بطور مذہبی خدمت یا عبادت تعلیم داعش کے عقائد کے عین مطابق ہے اور بہت خطرناک ہے۔‘‘ یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ علوی مذہبِ اسلام کے شیعہ دھارے سے قریب ہیں جبکہ ترکی میں اکثریت سنی مسلک سے منسلک مسلمانوں کی ہے۔
ترک حکومت کا کہنا ہے کہ لفظ ’جہاد‘ کا انتہا پسندوں کی جانب سے غلط استعمال کیا گیا ہے اور ان میں وہ گروہ بھی شامل ہیں جو ’مقدس جنگ‘ کا تصور پیش کرتے ہیں۔ انقرہ حکومت کے مطابق جہاد کے مضمون میں وطن پرستانہ تناظر کے ساتھ باطنی روحانی جدوجہد پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔
دوسری جانب علوی رہنماؤں کا اعتراض ہے کہ اسکولوں میں اُن کے بچوں کو سنی مسلک کے حساب سے تعلیم دی جاتی ہے، جس سے ترک معاشرے میں علویوں کی مسخ شدہ تصویر سامنے آ رہی ہے۔
فیڈریشن آف علوی فاؤنڈیشن کے رمزی اکبولوت کہتے ہیں،’’ ریاست علوی ازم کو عقیدے کے طور پر نہیں بلکہ بطور ثقافت یش کرتی ہے۔‘‘
امریکی محکمہ خارجہ نے مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ علوی مسلمانوں کو اظہار ناپسندیدگی اور تشدد کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔‘‘
علوی مساجد میں عبادت نہیں کرتے بلکہ اس مقصد کے لیے الگ جگہ بنائی جاتی ہے۔ اس جگہ کو ترک زبان میں ’جیمے وی‘ کہا جاتا ہے۔ ترک حکومت ان عبادت گاہوں کو تسلیم نہیں کرتی لیکن سنی مسلمانوں کی مساجد کو مالی امداد دی جاتی ہے۔
انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے گزشتہ برس فیصلہ دیا تھا کہ ترکی علویوں کی فنڈنگ روک کر اُن کے حقوق کی حق تلفی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
ترک وزارتِ تعلیم نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ترک وزیر تعلیم نے تاہم حال ہی میں کہا تھا کہ،’’ جہاد کا اصل مطلب اپنے ملک سے محبت اور امن کو یقینی بنانا ہے۔‘‘
ترک دارالحکومت انقرہ کی کچی بستیاں اور آئینی ریفرنڈم
انقرہ کی پسماندہ بستیوں کے باسیوں کو صدر رجب طیب ایردوآن کے دور میں زیادہ سہولتیں اور سماجی مراعات ملی ہیں لیکن یہ ترک شہری پھر بھی عنقریب منعقدہ ریفرنڈم میں صدر کے اختنیارات میں اضافے کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
دھواں دھواں بستیاں
سردیوں میں ترکی کے کم آمدنی والے علاقوں کے اوپر فضا میں دھوئیں کے بادل معلق رہتے ہیں۔ اس کی وجہ اس علاقے میں کوئلے سے چلنے والے تندور اور ہیٹر ہیں۔ جب سے رجب طیب ایردوآن برسرِاقتدار آئے ہیں، ترکی کے ان غریب ترین باشندوں کو خود کو گرم رکھنے کے لیے کوئلہ مفت مل رہا ہے۔ لیکن اس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ووٹ بھی ایردوآن ہی کو ملیں گے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ان ووٹروں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا
ترکی میں مجوزہ ریفرنڈم میں سوال یہ ہے کہ آیا اس ملک میں پارلیمانی نظام کی جگہ ایک ایسا صدارتی نظام رائج کر دیا جائے، جس کی کمان ایردوآن اور اُن کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کے ہاتھوں میں ہو۔ اگرچہ ایردوآن نے سماجی خدمات کے پروگراموں کے ذریعے غریبوں کی زندگیاں بہتر بنائی ہیں، لیکن ان بستیوں کے ووٹر ابھی بھی اپنے ووٹ کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
غریبوں کی جماعت
’’جب میرا شوہر بے روزگار تھا، تب میرا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ میں کوئلہ کہاں سے لاؤں۔ پھر اے کے پی نے ہمیں مفت کوئلہ دے دیا اور تب مجھے احساس ہوا کہ یہ جماعت غریبوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یہ باتیں تین بچوں کی ماں ایمل یلدرم نے ڈی ڈبلیو کو بتائیں: ’’پہلے کسی ڈاکٹر کے پاس جانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔اب ہسپتال غریبوں کو اپنے ہاں قبول کرنے کے لیے زیادہ آمادہ نظر آتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
کُرد ووٹ
ایمل یلدرم کا تعلق کُرد آبادی سے ہے اور اسی لیے وہ ترک ریاست اور کرد عسکریت پسندوں کے درمیان تنازعات پر بھی فکرمند ہیں: ’’اگر ایردوآن کو ’ہاں‘ میں ووٹ مل جاتا ہےتو حالات بہتر ہو جائیں گے۔ وہ کہتا ہیں کہ وہ امن کے خواہاں ہیں۔ دوسری طرف صلاح الدین دیمرتاس (جیل میں قید اپوزیشن رہنما) سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ ایردوآن کُردوں کو خون میں نہلا دیں گے ... ایسے میں کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
شک و شبہ حاوی ہے
بستی کے ایک راستے کے کنارے انتخابی مہم کے پوسٹر میں لپٹا ایک صوفہ۔ یہاں ایردوآن کے بارے میں جذبات ملے جلے ہیں۔ قریب ہی پچیس سالہ علی اپنی فیملی کار میں کلیجی کے سینڈوچ بیچ رہا ہے۔ اُس نے بتایا: ’’پندرہ مارچ کو اُنہوں نے یہاں کے باسیوں کو کوئلے سے بھرے تھیلے دیے۔ آخر وہ بہار کے موسم میں ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ سردیاں تو گئیں۔ یہ یقیناً ووٹوں کے لیے ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
’سسٹم میں خرابی ہے یا؟‘
علی نے بتایا کہ اسے حکومتی صفوں میں موجود کرپشن پر زیادہ تشویش ہے۔ علی نے کہا: ’’میں نہیں جانتا کہ خرابی نظام میں ہے یا اسے چلانے والے لوگوں میں۔ اسی طرح کے سوالات میرے ذہین میں اسلام کے حوالے سے بھی ہیں۔ کیا مسئلہ مذہب کا ہے یا اُن لوگوں کا، جو اس کا نام لے کر خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔ میری باتوں سے لگتا ہو گا کہ میں ریفرنڈم میں مخالفت میں ووٹ دوں گا لیکن درحقیقت میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
اپنے شوہر کے نقشِ قدم پر
تین سالہ عائشہ اپنے گھر کے سامنے کھڑی ہے۔ اُس کی ماں نے کہا کہ وہ اپنا نام ظاہر کرنا یا تصویر اُتروانا نہیں چاہتی لیکن یہ کہ ریفرنڈم میں اُس کا جواب ’ہاں‘ میں ہو گا کیونکہ اُس کا شوہر بھی ایسا ہی کرے گا۔ یلدرم نے کہا کہ اُس کا شوہر، جو ایک باورچی کے طور پر کام کرتا ہے، اس لیے ’ہاں‘ میں ووٹ دے گا کیونکہ ’اُس کے خیال میں ایردوآن جو بھی کہتا ہے، درست کہتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
ریفرنڈم؟ کس بارے میں؟
فریدہ تورہان (دائیں) اور اُس کا شوہر مصطفیٰ (بائیں) اپنے ڈرائنگ روم میں اپنے دو بیٹوں کے ساتھ موجود ہیں۔ فریدہ کے مطابق اُسے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ ریفرنڈم ہے کس بارے میں: ’’مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن میں روز خبریں دیکھتی ہوں اور مجھے کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ یہ ریفرنڈم ہے کیا۔ مجھے ابھی بھی نہیں پتہ کہ یہ ترامیم ہیں کس بارے میں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
سلامتی سب سے مقدم
مصطفیٰ تورہان بھی (تصویر میں نہیں)، جو سبزی منڈی میں رات کی شفٹ میں کام کرتا ہے، کہتا ہے کہ سلامتی کا معاملہ اولین اہمیت رکھتا ہے۔ اُس نے بتایا کہ اے کے پی نے حالیہ برسوں کے دوران کم آمدنی والے علاقوں میں ایمبولینس سروسز کا دائرہ پھیلایا ہے لیکن تشدد پھر بھی بڑھ رہا ہے: ’’رات کو اے کے سینتالیس رائفلوں سے مسلح نقاب پوش لوگوں کولوٹ لیتے ہیں، کبھی کبھی تو دس دس سال کے بچوں کے پاس بھی گنیں ہوتی ہیں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
تعلیم کا شعبہ پسماندگی کا شکار
مصطفیٰ کے مطابق اُن کے آس پاس اسکولوں کی حالت بھی بہتر نہیں ہو رہی: ’’ہم مفت کوئلہ اس لیے قبول کر لیتے ہیں کیونکہ ہم حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں اور یہ ایک طریقہ ہے، وہ پیسہ واپس لینے کا لیکن ہم اس بات کو ترجیح دیں گے کہ حکومت اسکولوں میں زیادہ سرمایہ کاری کرے تاکہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے امکانات بہتر ہو سکیں۔‘‘ اُس کا بڑا بیٹا آج کل کام کی تلاش میں ہے اور ابھی ناکامی کا سامنا کر رہا ہے۔