ترکی میں متعدد اسکالرز کو جنگ کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ ایسے ہی تدریس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کی نوکریاں بھی ختم کی گئی ہیں۔
تصویر: Imago/Depo Photos
اشتہار
ظفر گوزے تاروں والے آلات کے حامل اسٹوڈیو میں نوکری کرتے ہیں اور ہفتے میں تین دن کام کرتے ہیں۔ لکڑی کے اسٹول پر بیٹھ کر انگلیوں سے تاروں والے ساز بنانے والا یہ 49 سالہ ہنرمند بے حد اطمینان سے مصروفِ عمل ہے۔ ایک برس قبل گوزے کی یونیورسٹی کی ملازمت ختم کر دی گئی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ’ہم اس جرم کا حصہ نہیں بنیں گے‘‘ نام سے ایک پٹیشن پر دستخط کیے تھے، جس میں حکومت کی جانب سے کرد علاقوں میں کی جانے والی عسکری کارروائیوں پر تنقید کی گئی تھی۔ گوزے نے 21 برس تک انادولو یونیورسٹی میں پروفیسر کے بہ طور کام کیا۔
انہوں نے بتایا کہ جنوری 2016 میں ان کا ملازمت کے معاہدے میں توسیع نہ کی گئی اور پھر ایک ہنگامی حکم نامے کے ذریعے انہیں برطرف کر دیا گیا۔
سن 2016 میں اس پٹیشن پر دستخط کرنے والے ایسے ہی دیگر 22 سو پروفیسروں، استادوں اور دیگر دانش وروں میں سے زیادہ تر کو قریب اسی طرز کے حالات کا سامنا ہے۔
اس پٹیشن کو ابتدا میں 128 پروفیسروں نے شروع کیا تھا، جس میں ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں کردوں کے خلاف ترک فوج کی عسکری کارروائیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ بڑا عسکری آپریشن سن 2015 میں شروع کیا گیا تھا، جس کی وجہ وہاں کردستان ورکرز پارٹی کے ڈھانچے کو تباہ کرنا بتایا گیا تھا۔ ترک حکومت اس تنظیم کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے۔ اس عسکری آپریشن کی وجہ سے بہت سے عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا جب کہ حکومت کی جانب سے کئی مہینوں پر محیط کرفیو بھی مقامی آبادی کو برداشت کرنا پڑا۔
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔
تصویر: Reuters/Presidential Palace/K. Ozer
6 تصاویر1 | 6
اس پٹیشن میں کہا گیا تھا، ’’ہم اس جرم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہم ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے خلاف تشدد کا استعمال بند کرے۔ اس ملک کے ایک اکیڈمک کے طور پر ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم اس قتل عام میں شامل نہیں ہوں گے۔‘‘
اس پٹیشن کے جواب میں صدر رجب طیب ایردوآن کی جانب سے شدید قسم کا ردعمل سامنے آیا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہمیں ان خود ساختہ دانش وروں سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ انہیں اپنی حد میں رہنا چاہیے۔‘‘