ترکی میں زلزلہ، امدادی کارروائیاں جاری، 22 افراد ہلاک
25 جنوری 2020
ترکی کے شمال میں شدید زلزلے کے بعد امدادی کارروائیں جاری ہیں۔ ریکٹر اسکیل پر 6.8 کی شدت کے اس زلزلے سے کم از کم بائیس افراد اور ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
اشتہار
ترکی کا شمالی صوبہ الازیغ زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ریکٹر اسکیل پر 6.8 شدت کے اس زلزلے سے علاقے میں کئی عمارتیں منہدم ہو گئیں۔ حکام کے مطابق اب تک کم از کم بائیس افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ایک ہزار سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ترک حکام کے مطابق منہدم ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے درجنوں افراد پھنسے ہوئے ہیں، جنہیں نکالنے کے لیے ریسکیو کا کام جاری ہے۔
زلزلے کا مرکز ترک دارالحکومت انقرہ سے 750 کلومیٹر دور الازیغ صوبے کا سیوریجے نامی قصبہ تھا۔ گزشتہ شب قریب نو بجے کے قریب یہ زلزلہ 6.7 کلومیٹر کی گہرائی میں آیا۔
ترکی کے وزیر داخلہ سلیمان سوئلو کے مطابق ریسکیو ٹیمیں گزشتہ شب ہی متاثرہ علاقوں کی جانب روانہ کر دی گئی تھیں جب کہ ملکی فوج کو بھی امدادی کاموں میں شریک ہونے کے لیے الرٹ رکھا گیا ہے۔
ملبے تلے دبے افراد کی تلاش جاری
شدید سرد موسم کے باوجود امدادی ٹیمیں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے افراد کو نکالنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ ایک عمارت کے ملبے میں کم از کم بیس افراد ابھی بھی پھنسے ہوئے ہیں۔
سی این این ترک کے مطابق امدادی ٹیموں نے سیوریجے شہر کے مرکز میں ایک متاثر عمارت کے ملبے سے آٹھ افراد کو زندہ نکال لیا، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں۔
قدرتی آفات سے نمٹنے والے ترک ادارے (AFAD) کے مطابق الازیغ صوبے میں اٹھارہ افراد ہلاک ہوئے جب کہ ہمسایہ صوبے مالاتیا میں بھی چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ادارے کے مطابق 920 زخمی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
قدرتی آفات میں لاکھوں اموات، بچا کیسے جائے؟
چار سال پہلے ایک بڑی قدرتی آفت کا شکار ہونے والے جاپان میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں پیشگی حفاظتی تدابیر پر بات کی جا رہی ہے کیونکہ مؤثر انتباہی نظاموں کے باوجود اکثر یہ انتباہ بہت تاخیر سے متاثرین تک پہنچ پاتا ہے۔
تصویر: S. Berehulak/Getty Images
پاکستان میں آنے والا شدید سیلاب
29 جولائی 2010ء کو دریائے سوات میں آنے والے سیلاب نے بہت سے مکانات تباہ کر دیے یا پھر پانی کی منہ زور لہریں اُنہیں بہا کر اپنے ساتھ لے گئیں۔ شمالی پاکستان کے اس خطّے کے لیے یہ بہت بڑی تباہی تھی کیونکہ اس خطے میں پہلے ہی زلزلوں کا بھی ڈر رہتا ہے۔ سیلاب سے بچاؤ یا پہلے سے خبردار کرنے والے نظام عنقا ہیں۔ پیشگی انتباہی نظام امدادی تنظیمیں نصب کر رہی ہیں جبکہ سرکاری امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
تصویر: S. Berehulak/Getty Images
فلپائن میں ہائیون نامی طوفان کی تباہ کاریاں
نومبر 2013ء میں 380 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار کی حامل ہواؤں کے ساتھ ہائیون نامی طوفان فلپائن کو روندتا ہوا گزرا۔ اس ملک میں آنے والے طاقتور ترین طوفانوں میں شمار ہونے والے ہائیون کی زَد میں آ کر چھ ہزار سے زیادہ انسان مارے گئے۔ فلپائن کے شہریوں نے اس طوفان سے سبق سیکھتے ہوئے اب پُر خطر علاقوں میں مضبوط مکانات بنانے شروع کیے ہیں اور بر وقت انخلاء بھی اب ممکن ہو سکے گا۔
تصویر: DW/R.I. Duerr
تباہ کاری کے نتائج عشروں پر پھیلے ہوئے
مارچ 2011ء میں جاپان میں آنے والے شدید زلزلے اور اُس کے بعد سمندر میں اُٹھنے والی سونامی لہروں کی زَد میں آ کر پندرہ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔ ساحل پر بنے فوکوشیما کے ایٹمی بجلی گھر کی تباہی سے وسیع تر علاقے تابکاری کی زَد میں آ گئے۔ ایٹمی توانائی ترک کرنے کی بجائے حفاظتی انتظامات بہتر بنانے کا فیصلہ ہوا۔ فعال ایٹمی ری ایکٹر گنجان آباد علاقوں میں ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
دنیا کا خطرناک ترین خطّہ
فروری 2010ء میں ایک طاقتور زلزلے نے چلی کے ساحلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس زلزلے کے بعد حکام نے پیرو تک کے ساحلی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو سونامی لہروں سے خبردار کیا لیکن تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود آٹھ سو انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ چلی میں خاص طور پر زلزلوں کا ڈر رہتا ہے۔ دنیا بھر میں نوّے فیصد زلزلے اِسی خطّے میں آتے ہیں۔
تصویر: Reuters
خطرات کم ہوتے نظر نہیں آتے
بحیرہٴ کیریبین میں واقع ملک ہیٹی میں 2010ء میں ریکٹر اسکیل پر سات کی طاقت کے ایک شدید زلزلے نے دو لاکھ بیس ہزار انسانوں کو موت کی نیند سُلا دیا تھا۔ تب ہیٹی کے ایک ملین شہری بے گھر ہو گئے تھے۔ ہیٹی کے حکام آج بھی اس قابل نہیں ہیں کہ کسی قدرتی آفت کی صورت میں تمام متاثرین کو پیشگی خبردار کر سکیں۔ جنگلات کی کٹائی اور شدید بارشوں کے نتیجے میں اس ملک میں ہر وقت زمینی تودے گرنے کا خطرہ رہتا ہے۔
تصویر: A.Shelley/Getty Images
انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں قدرتی آفات؟
بارہ مئی 2008ء کو جنوبی چینی صوبے سیچوان میں ایک شدید زلزلے کے باعث 80 ہزار انسان مارے گئے، جن میں وہ ہزاروں بچے بھی شامل تھے، جو زلزلے کے وقت اپنی کلاسوں میں تھے۔ زلزلے کا مرکز ایک بڑے شہر کے قریب کئی کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔ بعد میں بھی وہاں مسلسل زلزلے آتے رہے۔ ماہرین کا اندازہ ہےکہ ان زلزلوں کی وجہ وہ بے پناہ دباؤ ہے، جو قریبی زی پنگ پُو ڈیم میں تیز رفتاری کے ساتھ پانی بھرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
تصویر: China Photos/Getty Images
میانمار میں ’نرگس‘ کے نتیجے میں سیلاب
2008ء میں مئی کی ایک قیامت خیز رات میں ’نرگس‘ نامی طوفان نے میانمار کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچا دی۔ سیلاب کی بلند لہروں سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ایک لاکھ چالیس ہزار انسان لقمہٴ اجل بن گئے۔ چونکہ فوجی حکومت نے بین الاقوامی امداد متاثرین تک پہنچنے نہیں دی تھی، اس لیے قدرتی آفت کے بعد بھی لوگ عرصے تک مصائب کا شکار رہے۔
تصویر: Hla Hla Htay/AFP/Getty Images
زلزلے نے کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا
اکتوبر 2005ء میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفر آباد کے قریب ایک زلزلے نے 30 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس کے اثرات بھارت میں بھی محسوس کیے گئے۔ گنجان آباد علاقوں میں 84 ہزار انسان موت کا شکار ہو گئے۔ زلزلے کے دو مزید طاقتور جھٹکوں اور طوفانی بارشوں نے متاثرین کو اَشیائے ضرورت کی فراہمی مشکل بنا دی۔ اس کے بعد امدادی تنظیموں نے پیشگی انتباہی نظام نصب کیے۔
تصویر: AFP/Getty Images/F. J. Brown
قیمتی گھنٹے ضائع کر دیے گئے
26 دسمبر 2004ء کو بحر ہند میں 9.1 قوت کے ایک زلزلے نے بلند سونامی لہروں کو جنم دیا، جنہیں انڈونیشیا، سری لنکا، بھارت اور تھائی لینڈ کے ساحلوں سے ٹکرانا تھا۔ امریکی محققین آٹھ منٹ بعد ہی جان گئے تھے کہ بڑی تباہی آنے والی ہے لیکن کئی گھنٹے بعد دو لاکھ تیس ہزار بے خبر انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ 2005ء میں پیشگی انتباہی نظام پر کام شروع ہو گیا لیکن بچاؤ کے انتظامات ابھی بھی ناکافی تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں صدی کا گرم ترین موسم گرما
2003ء میں یورپ کا موسم گرما غیر معمولی طور پر گرم تھا۔ اگست میں درجہٴ حرارت 47.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا، جو کہ اس براعظم کے لیے ایک ریکارڈ تھا۔ ستّر ہزار ہلاکتیں ہوئیں، بہت سے جنگلات میں آگ لگ گئی، دریا خشک ہو گئے اور کھیت ویران ہو گئے۔ موسمیاتی ماہرین کے خیال میں زمینی درجہٴ حرارت بڑھنے کی وجہ سے خشک سالی، طوفانی ہواؤں اور مسلسل بارشوں جیسے انتہائی موسم آگے چل کر ایک معمول بن سکتے ہیں۔
تصویر: PEDRO ARMESTRE/AFP/GettyImages
10 تصاویر1 | 10
آفٹر شاکس کا سلسلہ بھی جاری
زلزلے کے بعد کے بارہ گھنٹوں کے دوران کم از کم 390 آفٹر شاکس ریکارڈ کیے گئے جن میں سے کچھ کی شدت 5.4 تک ریکارڈ کی گئی۔ آفٹر شاکس کے تناظر میں ترک حکام نے مقامی لوگوں کو خبردار کر رکھا ہے کہ وہ مخدوش گھروں اور عمارتوں سے دور رہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ایک الازیغ کی ایک 47 سالہ شہری نے بتایا، ''زلزلہ بہت بھیانک تھا، ہم پر گھر کی اشیا گرنا شروع ہوئیں اور ہم باہر کی جانب بھاگ کھڑے ہوئے۔ اب ہم گھر میں نہیں بلکہ شہر سے باہر ایک فارم ہاؤس میں رکیں گے۔‘‘
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ ان کی حکومت عوام کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے تمام تر اقدامات کرے گی۔
زلزلے کے بعد عالمی رہنماؤں کی جانب سے بھی ترک عوام سے یک جہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی متاثرہ افراد سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
ش ح / ع ح (ڈی پی اے، روئٹرز)
ایران اور عراق: زلزلے کی تباہ کاریاں
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی ریکٹر اسکیل پر شدت 7.3 تھی اور یہ زلزلہ تیئس کلو میٹر گہرائی میں آیا۔ اتنی شدت اور کم گہرائی میں آنے والے زلزلے عام طور پر انتہائی تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Tasnim News Agency
عمارتیں زمین بوس
سات اعشاریہ تین شدت کے اس زلزلے نے ایران اور عراق کے مابین پہاڑی سرحدی سلسلے میں واقع کئی شہروں کو متاثر کیا۔ ایران کے کرمانشاہ صوبے میں سرپل ذہاب نامی قصبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں کئی عمارتیں زمیں بوس ہو گئیں۔
تصویر: Reuters/Tasnim News Agency
افراتفری کے مناظر
متاثرہ علاقے میں ہزاروں مکینوں نے اپنے گھروں کو تباہ اور اپنے عزیزوں کو مرتے دیکھا۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی علی خامنہ ای نے حکومت اور فوج کو متاثرین کی مدد کے لیے تمام ذرائع بروئے کار لانے کا حکم دیا ہے۔
تصویر: Reuters/Tasnim News Agency
زندہ بچ جانے والوں کی تلاش
ایرانی ریڈ کراس کے اہلکار تباہ شدہ عمارتوں میں پھنسے ممکنہ طور پر زندہ بچ جانے والے انسانوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکام کے مطابق زلزلے کے بعد لینڈ سلائیڈنگ کے سبب سڑکیں بلاک ہو چکی ہیں، جس کے باعث امدادی کارروائیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Pakizeh
مسلسل بڑھتی ہلاکتیں
ایرانی اور عراقی حکام اب تک سینکڑوں افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر چکے ہیں۔ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ زیادہ تر ہلاکتیں ایرانی صوبے کرمانشاہ میں ہوئیں۔
تصویر: Reuters/Tasnim News Agency
شدید سردی میں بے گھری
سرپل ذہاب نامی ایرانی قصبے کے زیادہ تر مکانات تباہ ہو چکے تھے۔ اس پہاڑی سلسلے میں ان دنوں رات کے وقت درجہ حرارت تین ڈگری ہو جاتا ہے اور یہاں زندہ بچ جانے والے متاثرہ افراد کھلے آسمان تلے شب بسری پر مجبور ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Pakizeh
ہسپتال بھی متاثر
سرپل ذہاب قصبے میں قائم واحد ہسپتال کو بھی شدید زلزلے کے باعث نقصان پہنچا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق ملکی فوج نے علاقے میں عارضی ہسپتال بنانا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/Tasnim News Agency
ہر طرف ملبہ
اس ایرانی قصبے کی عمارتیں اتنی تیزی سے تباہ ہونا شروع ہوئیں کہ مکین بمشکل ہی اپنی جان بچا کر نکل پائے۔
تصویر: Reuters/Tasnim News Agency
ہجرت پر مجبور
زلزلے کے بعد زندہ بچ جانے والے مقامی افراد تباہ حال شہروں میں آنے والے آفٹر شاکس کے باعث ان علاقوں سے ہجرت کرتے دکھائی دیے۔