جرمن وزارت خارجہ نے تصدیق کر دی ہے کہ ترک حکام نے روزنامہ ڈی ویلٹ کے رپورٹر ڈینیز یوچیل کو آزاد کر دیا گیا ہے۔ اس ترک نژاد جرمن صحافی کو گزشتہ برس 14 فروری کو دہشت گردی اور پراپیگنڈا کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ ترکی کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں ابھی بھی کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اس بیان کو ترک جرمن تعلقات میں کشیدگی کی ایک نئی لہر کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ جمعرات کے دن ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے جرمنی کا دورہ کیا، جس دوران میرکل اور علی یلدرم نے کئی اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس بارے میں تین اہم سوالات کے مختصر مگر مفصل جوابات۔
سوال: ترک وزیر اعظم کے دورہ جرمنی کے دوران کیا پیغام دیا چانسلر انگیلا میرکل نے ترکی کو؟
جواب: پیغام بہت سیدھا ہے۔ اور وہ یہ کہ ترکی کو جمہوری اقدار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ جعمرات کے دن میرکل نے بن علی یلدرم کے ساتھ ملاقات میں واضح کیا کہ جرمنی اور ترکی کے کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے میں کئی مشکلات درپیش ہیں۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان تعلقات کو بہتر بنانا ہی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ میرکل کے بقول یہ کام مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن برلن حکومت اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔
سوال: ترک جرمن تعلقات میں تناؤ کی وجہ ہے کیا آخر؟
جواب: ایک وجہ تو ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد شروع کیا گیا حکومتی کریک ڈاؤن بنا، اس دوران ترک حکومت کی طرف سے اپوزیشن گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر جرمنی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
پھر گزشتہ برس کے متنازعہ ریفرنڈم کے ذریعے ترک صدر کے اختیارات میں غیرمعمولی اضافہ کر دیا گیا۔ اس پر بھی جرمنی نے آواز اٹھائی۔ برلن حکومت کا کہنا ہے کہ اگر ترکی یورپی یونین کا رکن بننا چاہتا ہے، تو اسے یورپی اقدار کے مطابق سیاسی اور آئینی اصلاحات کرنا ہوں گی۔
ترکی میں آزادی اظہار اور صحافت پر پابندیوں کی وجہ سے بھی جرمنی نے انقرہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی، جہاں سے یہ معاملہ شدت اختیار کر گیا۔
سوال: ترک نژاد جرمن صحافی ڈینِیز یُوچیَل کی رہائی سے معاملات بہتر ہو سکیں گے؟
جواب: یہ انتہائی اہم معاملہ تھا، جس پر برلن حکومت نے کافی زیادہ احتجاج کیا تھا۔ تاہم جمعے کے دن یوچیل کی رہائی ایک اچھی پیشرفت ثابت ہو گی۔ برلن حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ترکی میں چھ جرمن شہری زیرحراست ہیں۔ یوچیل ان میں سے ایک تھے۔ تاہم ان پر باقاعدہ فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی۔
جمعرات کے دن میرکل نے ترک وزیر اعظم سے مطالبہ کیا تھا کہ یوچیل کی فوری رہائی ممکن بنائی جائے۔ تاہم تب بن علی یلدرم کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ تو ملکی عدالتیں ہی کریں گی اور اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ باتیں اور بھی ہیں، لیکن یہ معاملہ بھی دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جاتا تھا۔ اب لیکن ترک حکام نے یُوچَیل کو رہا کر دیا ہے، جو ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔
سلطنت عثمانیہ کی یادگار، ترکی کا تاریخی گرینڈ بازار
ترکی کے شہر استنبول میں واقع تاریخی گرینڈ بازار کا شمار دنیا کے قدیم ترین بازاروں میں ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد سن چودہ سو پچپن میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں رکھی گئی۔ گرینڈ بازار میں اکسٹھ گلیاں اورسینکڑوں دکانیں ہیں-
تصویر: DW/S. Raheem
اکسٹھ گلیاں، تین ہزار دکانیں
تین ہزار سے زائد مخلتف اشیاء کی دوکانوں والے اس صدیوں پرانے خریدو فروخت کے مرکز کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ہی چھت کے نیچے کم وبیش ہر طرح کی اشیاء خریدوفروخت کے لیے موجود ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
صدیوں سے چلتا کاروبار
یہاں پر چمڑے اور سلک کے ملبوسات تیار کرنیوالوں، جوتا سازوں، صّرافوں، ظروف سازوں، قالین بافوں، گھڑی سازوں، آلات موسیقی اور کامدار شیشے سے خوبصورت لیمپ تیار کرنیوالوں کی صدیوں سے چلی آ رہی دوکانیں بازار کی تاریخی حیثیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
زلزلے سے نقصان
گرینڈ بازار کو اپنے قیام کے بعد مختلف ادوار میں شکست وریخت کا سامنا کرنا پڑا۔ سولہویں صدی میں آنے والے زلزلے نے اس بازار کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ لیکن منتظمین نے بڑی حد تک اسے اپنی اصل شکل میں برقرار رکھا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
تین لاکھ خریدار روزانہ
ایک اندازاے کے مطابق روزانہ اڑھائی سے تین لاکھ افراد گرینڈ بازار کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں مقامی افراد کے علاوہ بڑی تعداد غیر ملکی سیاحوں کی بھی ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
فانوس و چراغ
خوبصورت نقش و نگار والے فانوسوں اور آنکھوں کو خیرہ کرتی روشنیوں والے دیدہ زیب لیمپوں کی دکانیں اس تاریخی بازار کی الف لیلوی فضا کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ترکی کی سوغاتیں
بازار میں خریدار خاص طور پر ترکی کی سوغاتیں خریدنے آتے ہیں۔ ان میں انواع واقسام کی مٹھائیاں اور مصالحہ جات شامل ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
پانی کے نلکے
صدیوں پرانے اس بازار کی ایک قابل ذکر بات یہاں پر اس دور میں مہیا کی جانےوالی سہولیا ت ہیں۔ جن میں سب سے نمایاں یہاں لگائے گئے پانی کے نل ہیں جن سے آج بھی یہاں آنے والے اپنی پیاس بجھا ر ہے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
اکیس دروازے
بازار میں داخلے اور اخراج کے لئے مختلف اطراف میں اکیس دروازے ہیں اور ہر ایک دروازے کو مختلف نا م دیے گئےہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
خواتین کے پرس
بازار میں خواتین کے دستی پرس یا ہینڈ بیگز سے لدی دوکانوں کی بھی کمی نہیں۔ یہاں پر اصل اور مصنوعی چمڑے اور مقامی کشیدہ کاری کے ڈیزائنوں سے مزین بیگ ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ معروف بین الاقوامی برانڈز کی نقول بھی باآسانی دستیاب ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
سونے کے زیورات بھی
طلائی زیورات اورقیمتی پتھروں کے شوقین مرد وخواتین کے ذوق کی تسکین کے لئے بھی گرینڈ بازار میں متعدد دوکانیں موجود ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
خوش اخلاق دوکاندار
اس بازار کی ایک اور خاص بات یہاں کے دوکانداروں کا مختلف زبانوں میں گاہکوں سے گفتگو کرنا ہے۔ بازار میں گھومتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائے دوکاندار گاہکوں کے ساتھ انگلش، عربی ، جرمن ، اردو اور ہندی زبانوں میں گفتگو کرتے سنائی دیتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
گرم شالیں
مقامی ہنرمندوں کے ہاتھوں سے تیار کی گئی گرم شالیں بھی یہاں خریداری کے لئے آنے والوں میں خاصی مقبول ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
بھاؤ تاؤ بھی چلتا ہے
گرینڈ بازار میں آنے والے گاہک دوکانداروں سے بھاؤ تاؤ کر کے قیمت کم کرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اس میں وہ اکثر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
دیدہ زیب سجاوٹ
ترکی کے مخلتف علاقوں میں تیار کیے جانے والے آرائشی سامان کو یہاں اتنے خوشنما طریقے سے سجایا جاتا ہے کہ قریب سے گزرنے والے ایک نظر دیکھے بغیر نہیں رہ سکتے۔
تصویر: DW/S. Raheem
شیشے کی دوکانیں
گرینڈ بازار میں ترک اور عرب نوجوانوں میں مقبول شیشے کی دوکانیں بھی ہیں جہاں مخلتف رنگوں کے شیشے اور ان میں استعمال ہونیوالا تمباکو بھی مختلف ذائقوں میں دستیاب ہے۔