ترکی میں پہلی بار: خاتون جج نے ہیڈ اسکارف پہن کر سماعت کی
4 نومبر 2015![Türkei Türkische Politikerinnen tragen Kopftuch](https://static.dw.com/image/17197178_800.webp)
استنبول سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں ملکی میڈیا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ نوجوان خاتون ججوں کا روایتی سیاہ گاؤن پہنے ایک مقدمے کی سماعت کے لیے جب کمرہ عدالت میں داخل ہوئیں تو انہوں نے سر پر گہرے رنگ کا ایک ہیڈ اسکارف بھی پہنا ہوا تھا۔
گزشتہ صدی کے پہلی چوتھائی میں کمال اتاترک کی طرف سے جدید ترکی کی بنیاد رکھے جانے کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا کہ ترکی میں کسی خاتون جج نے ہیڈ اسکارف پہن کر مقدمے کی سماعت کی۔
کچھ ہی دیر بعد اس جج کی آج عدالت میں لی گئی ایک تصویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی، جسے کئی ترک شہریوں نے سراہا لیکن ٹوئٹر پر سرگرم چند افراد نے اس کی مذمت بھی کی اور اس تصویر کے ساتھ لکھا: ’’اسلامی شرعی قانون کا اعلان۔‘‘ اس موقع پر ترک ذرائع ابلاغ نے اس خاتون جج کی شناخت ظاہر نہیں کی اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ اس جج نے استنبول کی ایک عدالت میں آج کس نوعیت کے مقدمے کی سماعت کی۔
ترکی میں ججوں اور ماہرین استغاثہ کے سپریم بورڈ نامی ریاستی ادارے HSYK نے اس سال جون میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل وہ پابندی ختم کر دی تھی جس کے تحت کسی بھی خاتون جج یا وکیل استغاثہ کو عدالتی کارروائی کے دوران اسلامی ہیڈ اسکارف پہننے کی اجازت نہیں تھی۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی اسلامی سوچ کی حامل پارٹی برائے انصاف اور ترقی AKP پر عام طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ترک معاشرے پر اسلامی اقدار مسلط کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران انقرہ حکومت ترک اسکولوں اور ریاستی اداروں میں طالبان اور خواتین کی طرف سے ہیڈ اسکارف پہننے پر عائد پابندی بھی ختم کر چکی ہے۔
ان اقدامات کی ترکی میں بہت سے ترقی پسند حلقوں کی طرف سے مخالفت کی جاتی ہے، جن کا کہنا ہے کہ اس طرح انقرہ حکومت ترک ریاست کے بنیادی طور پر سیکولر تشخص کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔
ترکی میں عوامی زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کی طرف سے ہیڈ اسکارف پہننے کے حق میں کیے جانے والے متعدد قانونی اور حکومتی فیصلوں کے باوجود ملکی فوج اور سکیورٹی فورسز کے شعبوں میں خدمات انجام دینے والی خواتین کو ابھی بھی یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے سروں پر ہیڈ اسکارف پہنیں۔