’ترکی میں ڈیڑھ لاکھ شامی بچے پیدا ہو چکے ہیں‘
29 فروری 2016![Bildergalerie syrische Flüchtlinge Wintereinbruch Januar 2015](https://static.dw.com/image/18185163_800.webp)
ترک نائب وزیر اعظم لفطی الوان نے کہا ہے کہ شامی تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ترکی میں پناہ حاصل کیے ہوئے شامی مہاجرین کے ہاں ایک لاکھ باون ہزار بچے پیدا ہو چکے ہیں۔
الوان نے کہا کہ ترکی میں ان مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے انتظامی مسائل کا سامنا ہے۔ الوان کا کہنا تھا کہ حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ ترکی میں موجود ان مہاجرین کو بہتر زندگی فراہم کی جائے۔
پیر کے دن جنیوا میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل سے خطاب کرتے ہوئے الوان کا کہنا تھا کہ شامی بحران کی وجہ سے ترکی پر بہت زیادہ بوجھ پڑا ہے اور عالمی برداری کو اس تناظر میں انقرہ حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔
الوان نے واضح کیا کہ ترکی بھرپور کوشش میں ہے کہ مہاجرین کے اس بحران پر قابو پا لیا جائے۔
الوان نے ترکی میں مہاجرین کے بحران کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ترکی میں موجود شامی پناہ گزین مائیں ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچوں کو جنم دے چکی ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ شامی تنازعے کی وجہ سے دو لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت پر مجبور ہو چکی ہے۔
ان شامی مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ترکی میں ہی موجود ہے جبکہ اس کے علاوہ لبنان اور اردن نے بھی بڑی تعداد میں شامی مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔
شامی مہاجرین کی کوشش ہے کہ وہ بہتر معیار زندگی اور پرسکون ماحول کی خاطر یورپ کی طرف نکل جائیں۔ وہ ترکی سے بذریعہ یونان دیگر یورپی ممالک جانے کی کوشش میں ہیں۔ اس دوران یورپ کو بھی مہاجرین کے ایک بہت بڑے بحران کا سامنا ہے۔
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ یورپی کو درپیش اس بحران سے نمٹنے میں انقرہ حکومت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ترکی نے اس معاملے پر ایک ڈیل بھی طے کی ہے، جس کے تحت ترکی سے یورپ جانے والے مہاجرین کی تعداد کو کم کرنا ہے۔ اس کے عوض یورپی یونین نے ترکی کو مالی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔