استنبول میں پاکستانی قونصل خانے کے ہیڈ آف چانسری دلدار علی ابڑو نے ایسی خبروں کو مسترد کر دیا ہے کہ ترکی میں مشتعل عوام کے حملے کے باعث پاکستانی بھی مارے گئے ہیں۔
اشتہار
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں استنبول میں پاکستانی قونصل خانے کے ہیڈ آف چانسری دلدار علی ابڑو نے کہا ہے کہ استنبول کے سلطان غازی ڈسٹرکٹ میں رونما ہونے والے حالیہ واقعے میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ دراصل افغان، کرد اور شامیوں کے مابین ایک تنازعہ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں ایک ترک شہری ہلاک ہو گیا۔
ابڑو کے مطابق اس ترک شہری کی ہلاکت کے بعد عوام نے سلطان غازی ڈسٹرکٹ میں پناہ گزینوں پر حملے شروع کر دیے۔ یہ امر اہم ہے کہ اس ڈسٹرکٹ میں پناہ کے متلاشی غیرقانونی افراد ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں، جہاں اکثر اوقات جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔ ترک پولیس بھی اس علاقے میں زیادہ مداخلت نہیں کرتی ہے تاہم قتل کی واردات کے بعد پولیس بھی فعال ہو چکی ہے۔
دلدار علی ابڑو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ استنبول کے سلطان غازی ڈسٹرکٹ میں موجود پناہ کے متلاشی افراد میں پاکستانی شہری بھی ہیں لیکن اس تازہ واقعہ میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس لڑائی میں نہ تو کوئی پاکستانی ملوث تھا اور نہ ہی کوئی ہلاک ہوا۔
ابڑو نے البتہ تصدیق کی کہ اس جھگڑے میں کچھ پاکستانی زخمی ضرور ہوئے ہیں، جنہیں طبی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ ابڑو نے مزید کہا کہ پاکستانی میڈٰیا میں استنبول میں پاکستانیوں کی ہلاکت کی خبریں غلط ہیں اور اس کا مقصد صرف حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے۔
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
دالدارعلی ابڑو نے بتایا ہے کہ وہ استنبول میں محکمہ پولیس کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اس جھگڑے کے محرکات جاننے کی کوشش میں ہے اور جلد ہی تفصیلات سامنے آ جائیں گی۔ ابڑو نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ استنبول میں پاکستانی قونصل خانہ زخمی ہونے والے پاکستانیوں کے علاج و معالجے کی خاطر ترک حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔
ابڑو نے کہا کہ ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ زخمی ہونے والے پاکستانی غیر قانونی تارکین وطن ہیں، جنہیں طبی مدد دینے کے بعد ملک بدر کر دیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ تقریبا ڈھائی برسوں کے دوران ترکی سے کم ازکم چھ ہزار غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔