ترکی کو سمندر میں قدرتی گیس کے بڑے ذخیرے کی دستیابی
22 اگست 2020
ترک صدر بارہا عزم ظاہر کر چکے ہیں کہ وہ بحیرہ روم میں تیل و گیس کی تلاش جاری رکھیں گے۔ اسی باعث ترکی نے زیر سمندر 320 بلین کیوبک میٹرز گیس کا ذخیرہ ڈھونڈ لیا ہے۔
اشتہار
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے جمعہ اکیس اگست کو اعلان کیا ہے کہ ان کے ملک کو قدرتی گیس کے ایک بہت بڑے ذخیرے تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ یہ انتہائی بڑا قدرتی گیس کا ذخیرہ بحیرہ اسود میں حالیہ کھدائی کے دوران ملا ہے۔ یہ سمندر آبنائے باسفورس کے راستے بحیرہ روم سے ملا ہوا ہے۔ سمندر کی گہرائی میں ملنے والے اس وسیع ذخیرے کا حجم 320 بلین کیوبک میٹر 11.1 (ٹریلین کیوبک فیٹ) بتایا گیا ہے۔ اس مقام پر تیل و گیس تلاش کرنے کا عمل ایک ترک بحری جہاز نے تقریباً ایک ماہ قبل شروع کیا تھا۔
ایردوآن کی مسرت
ترک صدر ایردوآن نے اس ذخیرے کے ملنے کا اعلان تاریخی شہر استنبول کے ڈولما باہچے پیلس میں تقریر کے دوران کیا۔ اس تقریر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کا امکان ہے کہ سن 2023 میں قدرتی گیس ترکی تک پہنچنا شروع ہو جائے گی۔ انہوں نے اسے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی قرار دیا۔ ایردوآن کے مطابق، ''اللہ نے ملک پر ناقابل یقین دولت کا دروازہ کھول دیا ہے۔‘‘
تیل و گیس تلاش کرنے والا ترک بحری جہاز 'فتیح‘ نے مغربی بحیرہ اسود میں زیر سمندر ڈرلنگ جاری رکھی ہوئی تھی۔ یہ سمندری علاقہ رومانیہ کی حدود کے قریب ہے اور یہ بھی اسی علاقے میں پہلے ہی قدرتی گیس کے وسیع ذخائر تلاش کر چکا ہے۔ ترکی کو قدرتی گیس کے ملنے والے ذخیرے کی ابھی حتمی تصدیق ہونا باقی ہے۔ اگر قدرتی گیس کے ذخیرے کی موجودگی کی حتمی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ خزانہ ترکی کے معاشی اور سماجی مستقبل پر انمٹ نقوش ثبت کرے گا۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بحیرہ اسود میں قدرتی گیس کے حصول کو ملک میں ایک نئے عہد کی شروعات سے بھی تعبیر کیا ہے۔ استنبول میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ بحیرہ روم میں تیل و گیس کی تلاش جاری رکھی جائے گی۔ اس پر یورپی یونین کی رکن ریاست یونان شدید اعتراض رکھتی ہے اور بارہا اپنی ناراضی کا اظہار بھی کر چکی ہے۔ مشرقی بحیرہ روم میں ترک کارروائیوں پر یونان نے یورپی یونین سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے جنگی بحری جہاز صورت حال پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔
قدرتی گیس کی ترک ضروریات
یہ امر اہم ہے کہ ترکی اپنی قدرتی گیس کی ضروریات پوری کرنے کا زیادہ انحصار روس پر کرتا ہے۔ سن 2019 میں ترک حکومت نے انرجی کی درآمد پر اکتالیس بلین ڈالر ادا کیے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مغربی بحیرہ روم سے گیس ترکی پہنچانے پر انقرہ حکومت کو سپلائی کے بنیادی ڈھانچے کی تنصیب پر اربوں ڈالر خرچ بھی کرنا پڑیں گے اور اس کے لیے چند سال درکار ہوں گے۔
جرمنی کے کامرس بینک سے منسلک ایک ماہر اُلرِش لوئشٹ مان کا کہنا ہے کہ قدرتی گیس کے انتہائی بڑے ذخیرے کی دستیابی ایک مثبت خبر ہے لیکن اسے 'گیم چینجر‘ نہیں قرار دیا جا سکتا، جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ذخیرہ کوئی بہت بڑا نہیں کیونکہ بحیرہ روم میں اس سے بڑے ذخائر تلاش کیے جا چکے ہیں۔ ان وسیع ذخائر میں مصر کا 'ظہر فیلڈ‘ بھی ہے، جس کا حجم 850 بلین کیوبک میٹر ہے۔
ع ح، ع آ (ڈی پی اے، اے ایف پی)
اس دنیا کا تحفظ کیسے ممکن ہو؟
ہر سال کے طرح اس مرتبہ بھی انسانوں نے 2019ء کے مقرر کردہ تمام تر قدرتی وسائل انتیس جولائی تک استعمال کر لیے۔ اسلام اور دیگر مذاہب بھی اس دنیا اور قدرت کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
پانی، زندگی کا اہم جزو
دنیا کے کچھ خطوں میں تازہ پانی تک رسائی کو انتہائی غیر سنجیدہ طور پر لیا جاتا ہے تاہم حقیقت میں یہ ایک ’عیاشی‘ ہے۔ دنیا میں موجود پانی میں سے تازہ اور پینے کے لیے آلودگی سے پاک پانی کا ذخیرہ صرف 2.5 فیصد بنتا ہے اور اس میں سے بھی نصف سے زائد برف ہے۔ سن دو ہزار پچاس تک دنیا کی آبادی کا ایک تہائی اس اہم جنس کی شدید کم یابی کا شکار ہو جائے گا، جس سے انسانی زندگی شدید متاثر ہو گی۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress
زیر کاشت زمین، ایک نیا سونا
زیر کاشت زمین کے حصول کی خاطر دنیا بھر میں مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے اجناس کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی انسان اپنے غیر ذمہ دارانہ طرز زندگی سے اس زمین کو نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ چین اور سعودی عرب اس کوشش میں ہیں کہ وہ افریقہ میں قابل کاشت زمینیں خرید لیں۔ نئے دور میں یہ زمین ایک نیا سونا بنتی جا رہی ہے۔
تصویر: Imago/Blickwinkel
فوسل فیولز، قدیمی ذرائع توانائی
زمین سے حاصل کردہ قدیمی ذرائع توانائی میں بھی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ تیل، گیس اور اسی طرح کے دیگر فوسل فیولز کو پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ ان قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال ایک لمحہ فکریہ ہے۔ عراق اور لیبیا جیسے ممالک کے لیے یہ زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ وہاں موجود قدرتی گیس اور تیل کی ذخائر کے خاتمے کے بعد ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpaH. Oeyvind
کوئلہ، اہم مگر آلودگی کا باعث
جرمنی جیسے ممالک بھی اگرچہ توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف قدم بڑھانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں لیکن اچھے کوئلے کے ذخائر بھی ختم ہونے کے قریب ہیں۔ پولینڈ میں بھورے کوئلے کے وسیع تر ذخائر سن دو ہزار تیس تک ختم ہو جائیں گے۔ سخت کوئلے کی کانیں شاید باقی بچیں گی لیکن وہ بھی جلد ختم ہو جائیں گی۔
تصویر: picture alliance/PAP/A. Grygiel
ریت، ہر طرف اور کہیں بھی نہیں
اگر ہم صحرا کو سوچیں تو ریت کی وسعت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کی قدرتی پیداوار کا عمل انتہائی سست ہے۔ ریت بھی توانائی کا ایک متبادل ذریعہ ہے لیکن تعمیراتی مقاصد کی خاطر اسے اتنی تیزی سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ جلد ہی یہ بھی ختم ہو جائے گی۔ بالخصوص افریقہ، جہاں 2050ء آبادی دوگنا ہو جائے گی، تب وہاں یہ جنس نایاب ہو جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/ZB/P. Förster
ناپید ہوتے نایاب جانور
انسانوں کے لاپروا رویوں کی وجہ سے دنیا میں جانداروں کی کئی نسلیں ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ پیش رفت اس زمین کے حیاتیاتی تنوع کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ شکار اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث یہ خطرہ دوچند ہو چکا ہے۔ ان اہم جانوروں کے ختم ہونے سے انسانی زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/I. Damanik
وقت، کیا یہ بھی ختم ہونے والا ہے؟
تو معلوم ہوتا ہے کی تمام اہم قدرتی وسائل ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ کیا وقت بھی ختم ہونے کو ہے؟ اب بھی کچھ وقت باقی ہے اور کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اگر آئندہ بارہ برسوں کے لیے ’ماحولیاتی ایمرجنسی‘ نافذ کر دی جائے تو انسانوں کی پھیلائی ہوئی ماحولیاتی تباہی سے نمٹا جا سکتا ہے۔ اگر عمل نہ کیا تو جلد ہی وقت بھی ختم ہو جائے گا۔