ترکی نے شامی مہاجرین کو زبردستی واپس بھیجا، ایمنسٹی
25 اکتوبر 2019
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ترکی میں پناہ لیے ہوئے شامی مہاجرین کو ترک حکومت نے زبردستی شام میں واپس بھیجا اور ان کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کیا۔
اشتہار
ایمنسٹی کے مطابق شام کے شمالی حصے میں ترک آپریشن کے آغاز سے کئی ماہ قبل ہی ترکی نے مہاجرین کو زبردستی شمالی شام میں واپس بھیجا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی محققہ برائے مہاجرین اور تارکین وطن حقوق آنا شیا Anna Shea کے بقول، ''ترکی کا یہ دعویٰ کہ شامی مہاجرین خود ہی تنازعے کے شکار علاقے میں واپس جا رہے ہیں، خطرناک اور بد دیانتی پر مبنی ہے، بلکہ ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ لوگوں کو دھوکا دہی سے یا زبردستی واپس بھیجا جا رہا ہے۔‘‘
اس تنظیم کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ترکی یہ سلسلہ ترک کرے اور ان شامی مہاجرین کو واپسی کی اجازت دے جنہیں پہلے وہاں بھیجا جا چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 3.6 ملین شامی مہاجرین ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
درجنوں مہاجرین نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ تُرک پولیس نے مار پیٹ اور ڈرا دھمکا کر انہیں اس بارے میں دستاویزات پر دستخط کرائے کہ وہ شام واپس جانے پر آمادہ ہیں۔ رواں برس جولائی اور اکتوبر کے درمیان کیے گئے انٹرویوز سے محققین نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ سینکڑوں لوگوں کو ان کی خواہش کے برخلاف غیر قانونی طور پر شام واپس بھیجا گیا۔
ترک حکام کے اعداد وشمار کے مطابق 315,000 شامی مہاجرین رضاکارانہ طور پر وطن واپس لوٹ گئے۔
شام میں لوگوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات اور انسانی حقوق کی صورتحال کے سبب یہ غیر قانونی ہے کہ مہاجرین کو زبردستی شام واپس بھیجا جائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تحقیق کے مطابق بعض شامی مہاجرین کو 'رضاکارانہ واپسی‘ کی دستاویزات پر دستخط کے لیے مارا پیٹا گیا۔ ان مہاجرین کے مطابق انہیں بتایا گیا کہ وہ دستاویزات دراصل رجسٹریشن کے مقصد کے لیے ہیں یا یہاں تک بھی کہا گیا کہ یہ ترکی میں ان کی رہائش کی درخواست ہے۔ بعض مہاجرین کو کہا گیا کہ چونکہ وہ ترکی میں مناسب طور رجسٹر نہیں ہیں اس لیے انہیں واپس جانا ہو گا۔
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔