ترکی نے شامی کرد علاقوں میں زمینی آپریشن شروع کر دیا
10 اکتوبر 2019
ترکی نے شمالی شام میں کردوں کے زیر اثر علاقوں میں شدید فضائی حملوں کے بعد زمینی فوجی آپریشن بھی شروع کر دیا ہے۔ ان علاقوں میں موجود امریکی افواج علاقے سے چلی گئی ہیں۔ عرب لیگ اور امریکا نے ترک حملوں پر تنقید کی ہے۔
اشتہار
ترک صدر رجب طیب اردوآن نے بدھ کے روز اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں بتایا تھا کہ ترکی جلد ہی شام کے شمال میں کردوں کے زیر اثر علاقوں میں عسکری آپریشن شروع کرنے والا ہے۔ صدر ایردوآن نے کرد ملیشیا کے خلاف اس عسکری مشن کو 'آپریشن امن بہار‘ کا نام دیا تھا۔ اس پیغام کے کچھ ہی دیر بعد ترک فضائیہ نے شمالی شام میں شدید بمباری شروع کر دی تھی۔ بمباری کے بعد بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ترکی فوج کے زمینی دستے شمالی شام میں داخل ہو گئے۔
اس سے قبل شمالی شام میں موجود امریکی افواج غیر متوقع طور پر علاقے سے نکل گئی تھیں۔ تاہم امریکا کا کہنا ہے کہ ترک فوجی آپریشن میں واشنگٹن کی رضامندی شامل نہیں تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ترک فوجی آپریشن میں ' ممکنہ حد تک انسان دوستانہ رویہ‘ اختیار نہ کیا گیا تو وہ 'ترک معیشت کو تباہ‘ کر دیں گے۔
بین الاقوامی ردِ عمل
ترکی نے اتوار چھ اکتوبر کے روز شمالی شام میں ممکنہ عسکری کارروائی کا عندیہ دیا تھا، اس وقت عالمی سطح پر زیادہ ردِ عمل سامنے نہیں آیا تھا۔ تاہم فوجی کارروائی شروع ہونے کے فوری بعد انقرہ حکومت کے اس اقدام پر شدید ردِ عمل سامنے آیا ہے۔
تازہ صورت حال کی روشنی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج جمعرات کو طلب کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب عرب لیگ نے بھی اپنی تنظیم کا ہنگامی اجلاس بارہ اکتوبر کے روز مصری دارالحکومت قاہرہ میں طلب کر لیا ہے۔
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
15 تصاویر1 | 15
سعودی عرب نے بھی ترکی کے فوجی آپریشن کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے کی سلامتی اور جہادیوں کے خلاف جنگ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم نے بھی ترک حملے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے داعش کے خلاف عالمی جنگ متاثر ہو گی۔
آپریشن کے آغاز کے بعد امریکی کانگریس کے متعدد ارکان نے بھی ایک ایسا مسودہ قرارداد پیش کر دیا ہے جس میں ترکی کے خلاف کئی تادیبی اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں ترک صدر ایردوآن کے خلاف ذاتی نوعیت کی امریکی پابندیوں کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ اس مسودے میں امریکی صدر ٹرمپ پر بھی یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے چند روز قبل شمالی شام سے واشنگٹن کے فوجی دستوں کے انخلاء کے فیصلے کے ساتھ اس ترک فوجی آپریشن کے لیے راہ ہموار کی۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ ترکی کے اپنی سلامتی سے متعلق تحفظات حقیقی ہیں۔
نیٹو کے سکریٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے ترکی سے 'تحمل‘ کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ کرد ملیشیا کے خلاف کارروائی سے داعش کے خلاف جنگ خطرے میں پڑ جائے گی۔
ترکی کا موقف
انقرہ حکومت شامی کردوں کو ترک کردوں کا اتحادی اور دہشت گرد قرار دیتی ہے۔ ترک صدر ایردوآن نے 'آپریشن امن بہار‘ کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ شامی کردوں کی تنظیم 'سیریئن ڈیموکریٹک فورسز‘ یا 'ایس ڈی ایف‘ کے خلاف کارروائی اس لیے ناگزیر ہے کیوں کہ وہ ترکی کے خلاف حملے کرنے والے کرد دہشت گردوں کے ساتھی ہیں۔
علاوہ ازیں انقرہ حکومت کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ عسکری کارروائی کے بعد شامی سرحد کے اندر 'محفوظ زون‘ کا قیام ممکن ہو جائے گا جس کے بعد ترکی میں موجود لاکھوں شامی مہاجرین کو شامی سرزمین پر دوبارہ آباد کیا جا سکے گا۔
شامی کردوں کا ردِ عمل
شامی کردوں کی قیادت میں ایس ڈی ایف گزشتہ پانچ برسوں سے داعش کے خلاف جنگ میں امریکا کی اتحادی ہے۔ شام میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ کو شکست دینے میں ان کرد گروہوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اندازوں کے مطابق داعش کے خلاف لڑائی میں کردوں کی تنظیم ایس ڈی ایف کے گیارہ ہزار سے زائد کارکن ہلاک ہوئے تھے۔
شمالی شام سے امریکی افواج کے اچانک انخلا کے بعد ایس ڈی ایف نے امریکا اور مغربی ممالک پر شدید تنقید کی ہے۔ کرد رہنماؤں نے امریکا اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ شمالی شام کو 'نو فلائی زون‘ قرار دیا جائے بصورت دیگر ترک حملوں کے باعث پیدا ہونے والے ممکنہ 'انسانی المیے‘ کی ذمہ داری عالمی برداری پر عائد ہو گی۔
ایس ڈی ایف نے ترک حملوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے شمالی شام کے شہریوں کو ترکی کے ساتھ متصل سرحد کی جانب سفر کرنے اور مزاحمت کرنے کی اپیل کی ہے۔
ش ح / ک م (اے ایف پی، ڈی پی اے)
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔