ترکی نے مشرق وسطی سے ابھرنے والی دہشت گرد تنظيم ’اسلامک اسٹيٹ‘ کی صفوں ميں شامل ہو کر لڑنے والے غير ملکی جہاديوں کی ان کے آبائی ممالک واپسی شروع کر دی ہے۔
اشتہار
پير گيارہ نومبر کو سب سے پہلے ايک امريکی شہری کو روانہ کيا گيا جبکہ جرمنی اور ڈنمارک کے ايک ايک شہری کو بھی آج بروز پير ہی ملک بدر کيا جا رہا ہے۔ رواں ہفتے کے دوران متعدد يورپی نژاد جہاديوں کو ان کے آبائی ممالک روانہ کيا جائے گا۔ ترک وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتايا کہ امکاناً جمعرات کو سات جرمن شہريوں کو ملک بدر کيا جائے گا۔ اس کے علاوہ فرانس کے گيارہ اور آئرلينڈ کے دو جہاديوں کو ملک بدر کيا جانا ہے۔
پير کو جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اس کی تصديق کر دی ہے کہ ترکی کی جانب سے سات جہادی اور دو بچے بھيجے جا رہے ہيں۔ البتہ ديگر ممالک کی جانب سے فی الحال اس تازہ پيش رفت پر کوئی رد عمل سامنے نہيں آيا ہے اور نہ ہی يہ واضح ہے کہ وطن واپسی پر ان جہاديوں کے ساتھ کيا ہو گا؟
ترک صدر رجب طيب ايردوآن نے پچھلے ہفتے بتايا تھا کہ ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے کُل 1,149 جنگجو ترکی کے پاس زير حراست ہيں، جن ميں سے غير ملکی جہاديوں کی تعداد 737 ہے۔ ترک صدر کے بعد وزير داخلہ سليمان سوئيلو نے پچھلے ہفتے دھمکی دی تھی کہ چاہے ان کی شہريت منسوخ کر دی گئی ہو، ترکی غير ملکی جہاديوں کی ان کے ممالک واپسی شروع کر دے گا۔ يہی وجہ ہے کہ فی الحال يہ واضح نہيں کہ جہاديوں کی ان کے آبائی ممالک روانگی کس سمجھوتے يا کن انتظامات کے تحت جاری ہے۔ يہ بھی واضح نہيں کہ جن افراد کو ملک بدر کيا جا رہا ہے، آيا انہيں شام ميں ترک فوجی آپريشن ميں گرفتار کيا گيا تھا يا پھر يہ پہلے سے کردوں کی قيد ميں تھے۔
ترکی نے شام سے متصل اپنی سرحد پر نو اکتوبر سے فوجی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ ترک افواج ’کُردش پيپلز پروٹيکشن يونٹ‘ (YPG) اور ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے خلاف برسرپيکار ہيں۔ دوسری جانب وائی پی جی سيريئن ڈيموکريٹک فورسز (SDF) کی قيادت کر رہی ہے اور يہ امريکی فورسز کے ساتھ ايک عرصے تک داعش کے خلاف متحرک رہی ہے۔ داعش کے تقريباً دس ہزار جنگجو (SDF) کے مراکز ميں قيد ہيں۔ ان ميں سے ايک بڑی تعداد غير ملکی جنگجوؤں کی ہے تاہم کئی يورپی ممالک جہاديوں، ان کی بيواؤں اور بچوں کو واپس لينے سے انکار کر چکے ہيں۔
فکر و اطمينان کی کشمکش ميں مبتلا شامی کرد
شام ميں کردوں کے خلاف ترکی کی فوجی کارروائی اور دمشق حکومت کے دستوں کی واپسی نے مقامی کردوں کو ايک عجيب سی کشمکش ميں مبتلا کر ديا ہے۔ شامی فوج کی واپسی مقامی کردوں کے ليے فکر کا باعث ہے۔
تصویر: Karlos Zurutuza
دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی کی شام ميں فوجی کارروائی کے نتيجے ميں اب تک دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہيں۔ ايسے ميں لاتعداد افراد نے سرحد پار کر کے عراق ميں کرد علاقوں کی طرف جانے کی کوشش کی ليکن صرف انہيں ايسا کرنے ديا گيا، جن کے پاس مقامی رہائش کارڈ يا اجازت نامہ تھا۔
تصویر: Karlos Zurutuza
سرحدی علاقوں ميں مردوں کی اکثريت
شام کے شمال مشرقی حصوں ميں کئی ديہات خالی ہوتے جا رہے ہيں کيونکہ وہاں سے بڑے پيمانے پر نقل مکانی جاری ہے۔ ترک سرحد کے قريب علاقوں سے عورتيں اور بچے، اندرون ملک صوبہ الحسکہ منتقل ہو رہے ہيں۔ نتيجتاً سرحدی علاقوں ميں اکثريتی طور پر مرد بچے ہيں۔ تين بچوں کی والدہ ايک خاتون نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ الحسکہ ميں بھی لوگوں کی کافی تعداد ميں آمد کے سبب حالات مشکل ہوتے جا رہے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
چہل پہل والے علاقے آج ويران
عامودا کے اس بازار ميں ہر وقت گھما گھمی رہا کرتی تھی ليکن آج يہ ويران پڑا ہے۔ يہاں اب اکثر مرد اکھٹے ہوتے ہيں۔ نو اکتوبر کو شروع ہونے والی ترکی کی فوجی کارروائی کے بعد سے بہت سی دکانيں بند ہو چکی ہيں۔ شامی کرنسی کی قدر ميں کمی کے سبب دکاندار اپنی اشياء کوڑيوں کے دام بيچتے ہيں۔ شيلنگ اکثر صبح سے شروع ہوتی ہے۔ جو لوگ اب بھی اس شہر ميں موجود ہيں، وہ رات کو کم ہی باہر نکلتے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
کل کے دشمن، آج کے دوست
ترک سرحد سے متصل شمال مشرقی شامی شہر قامشلی ميں کرد انتظاميہ اور صدر بشار الاسد کے حاميوں کے مابين حالات سن 2011 ميں خانہ جنگی کے آغاز ہی سے کشيدہ ہيں۔ شامی فوج کی ترک سرحد پر تعيناتی کے حوالے سے فريقين کے مابين تازہ ڈيل کے بعد ابھی تک يہ غير واضح ہے کہ علاقے کا حقيقی کنٹرول کس کے پاس ہو گا۔
تصویر: Karlos Zurutuza
دو محاذوں پر لڑائی
کرد فائٹرز ترک فوج اور انقرہ کے حمايت يافتہ جنگجوؤں کے خلاف برسرپيکار تو ہيں ليکن يہ واضح نہيں کہ اسد کی حمايت حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے ہی ملک ميں کس صورتحال سے دوچار ہوں گے۔ کيا اسد حکومت ان کے زير کنٹرول علاقوں پر اپنی مرضی مسلت کرے گی يا کردوں کو آزادی مل سکے گی۔
تصویر: Karlos Zurutuza
امريکا نے غلط وقت پر کردوں کا ساتھ چھوڑا
امريکا کی جانب سے يکطرفہ اور اچانک شام سے اپنی فوج کے انخلاء کے فيصلے سے شامی کرد سمجھتے ہيں کہ ان کے ساتھ اچھا نہيں کيا گيا۔ بہت سے مقامی لوگوں نے اس پر اطمينان کا اظہار کيا کہ ترک فوج کی پيش قدمی روکنے کے ليے ان کی انتظاميہ نے دمشق حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کر ليا ہے۔
تصویر: Karlos Zurutuza
ہلاک شدگان کی تعداد ہزاروں ميں
شامی کردوں کے مطابق دہشت گرد تنظيم ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے خلاف لڑائی ميں ان کے گيارہ ہزار سے زائد جنگجو ہلاک ہوگئے۔ داعش کو اس علاقے ميں شکست ہو چکی ہے ليکن قتل و تشدد کے واقعات اب بھی جاری ہيں۔ ترکی کی چڑھائی کے بعد سے بھی درجنوں شہری اور سينکڑوں فائٹرز ہلاک ہو چکے ہيں۔