ترکی نے پاکستانیوں سمیت 310 مہاجرین یونان جانے سے روک دیے
شمشیر حیدر AP
5 نومبر 2017
ترک حکام کے مطابق ملکی ساحلی محافظوں نے ترک ساحلوں سے ایک کشتی میں سوار ہو کر یونان جانے کی کوشش کرنے والے سینکڑوں مہاجرین اور تارکین وطن کو روک دیا۔
اشتہار
یورپی یونین اور ترکی کے مابین گزشتہ برس طے پانے والے ایک معاہدے کے بعد ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد انتہائی کم ہو گئی تھی۔ تاہم حالیہ مہینوں کے دوران ایک مرتبہ پھر اس رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ترک ساحلی محافظوں کے مطابق جمعے کی شب ایسی ہی کوشش کرنے والے سینکڑوں مہاجرین اور تارکین وطن کو روک دیا گیا۔ کوسٹ گارڈز کے مطابق تین سو سے زائد تارکین وطن ملک کے مغربی ساحلوں سے بحیرہ ایجیئن کے سمندری راستے عبور کر کے یونان جانا چاہتے تھے۔
یہ مہاجرین ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی ایک کشتی میں سوار ہو کر بحیرہ ایجیئن میں روانہ تھے تاہم ترک کوسٹ گارڈز نے نشاندہی کے بعد اس کشتی کو ملکی سمندری حدود ہی میں روک کر تارکین وطن کو واپس ترک ساحل آنے پر مجبور کر دیا۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
حکام کا کہنا ہے کہ یونان کی جانب روانہ اس کشتی میں 110 شامی مہاجرین کے علاوہ پاکستان، افغانستان، بھارت اور ایران سے تعلق رکھنے والے 179 تارکین وطن بھی سوار تھے۔
علاوہ ازیں ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی پر سات ترک اور بیلاروس کے دو شہری بھی سوار تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ افراد مبینہ طور پر انسانوں کے اسمگلر ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق سن 2015 کے دوران ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد افراد بحیرہ ایجیئن کے انہی سمندری راستوں کے ذریعے ترکی سے یونان پہچنے تھے۔ تاہم مارچ سن 2016 میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق طے پانے والے ایک معاہدے کے بعد ان راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد ڈرامائی طور پر کم ہو گئی تھی۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ یونان سے بلقان کی ریاستوں کے زمینی راستوں کے ذریعے مغربی یورپ پہنچنے کے راستے بھی بند ہیں اور اسی وجہ سے گزشتہ برس سے ہزاروں مہاجرین اور تارکین وطن یونان میں پھنسے ہوئے ہیں۔