1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی نے ڈی ڈبلیو پر پابندی لگانے کی دھمکی دی

10 فروری 2022

ترکی کی نشریاتی اتھارٹی آر ٹی یو کے نے ڈی ڈبلیو سمیت تین بین الاقوامی میڈیا اداروں کو 72 گھنٹے کے اندر لائسنس کے لیے درخواست نہ دینے کی صورت میں انہیں بلاک کر دینے کی دھمکی دی ہے۔

Deutsche Welle Logo
تصویر: S. Ziese/blickwinkel/picture alliance

ترکی کی نشریاتی اتھارٹی 'ٹرکش ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن سپریم کونسل' (آر ٹی یو کے) کے ایک رکن اور ترکی کی اپوزیشن جماعت ری پبلیکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے رہنما اونور کونور الپ نے بدھ کے روز ایک ٹوئٹ کر کے بتایا، "ڈوئچے ویلے، وائس آف امریکا اور یورو نیوز کو آر ٹی یو کے نے 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس مدت کے اندر نشریاتی لائسنس کے لیے درخواست جمع کرا دیں یا اپنی نشریات پر پابندی عائد کر دیے جانے کے لیے تیار رہیں۔"

آر ٹی یو کے کے نائب صدر ابراہیم اوسلو نے جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئے اس اطلاع کی تصدیق کی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ڈی ڈبلیو کو اپنی ویب سائٹ کے لیے لائسنس کی خاطر فوراً درخواست دینی ہوگی ورنہ جرمن نشریاتی ادارے کے آن لائن صحافتی مواد تک ترکی میں رسائی نہیں ہوسکے گی۔ انہوں نے کہا کہ آر ٹی یو کے کا باضابطہ فیصلہ اس کی آفیشیل ویب سائٹ پر سات سے دس دن کے اندر شائع کر دیا جائے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ترکی کی نشریاتی اتھارٹی کے اس اقدام سے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا اور یورپی نیوز نیٹ ورک 'یورو نیوز' کے ترکی شعبے بھی متاثر ہوں گے۔

ترک صحافی الہان تاسجی، جو آر ٹی یو کے، کے رکن بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کی نکتہ چینی کرنے والوں کو خاموش کرنے کی سمت میں ایک اور قدم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ علاقائی چینلوں کے ساتھ ساتھ اب پہلی مرتبہ بین الاقوامی نشریاتی ادارے بھی میڈیا پر نگاہ رکھنے والی حکومتی اتھارٹی کا نشانہ بن گئے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ہر لحاظ سے افسوس ناک ہے اور یہ پریس کی آزادی میں براہ راست مداخلت کے مترادف ہے۔

اونور کونور الپ نے بھی آر ٹی یو کے کے فیصلے کی سخت مذمت کی اور کہا کہ ترکی کی طیب ایردوآن کی قیادت والی اے کے پی حکومت بین الاقوامی اور قومی دونوں سطحوں پر تمام انٹرنیٹ مواد پر کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔

ترکی نے حالیہ برسوں میں میڈیا کے ضابطوں کو کافی سخت کر دیا ہےتصویر: Adem Altan/Getty Images/AFP

میڈیا پر حکومت کا بڑھتا ہوا کنٹرول

ابراہیم اوسلو نے سینسر شپ کے تمام الزامات کی تردید کی۔ انہوں نے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ سن 2019 کے میڈیا قوانین پر عمل درآمد کے لیے ایک سادہ سا تکنیکی قدم ہے۔

یہ قانون حکمراں اے کے پی حکومت کو انٹرنیٹ پلیٹ فارموں پر کنٹرول کرنے کا مزید اختیار دیتا ہے۔ اس میں دس برس کی مدت کے لیے لازمی طورپر لائسنس حاصل کرنے اور تمام نشریاتی اداروں میں مقامی نمائندگی یقینی بنانے کی بات کہی گئی ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ایک ترجمان نے ترکی کی نشریاتی اتھارٹی کے اقدام پر اپنے ردعمل میں کہا،" ہمیں میڈیا کے ذریعہ آر ٹی یو کے کے ایک ممکنہ فیصلے کا علم ہوا ہے، جس سے ڈی ڈبلیو پر بھی اثرات پڑسکتے ہیں۔ تاہم ہم اس کا جامع تجزیہ کریں گے اور اتھارٹی کی جانب سے باضابطہ نوٹیفکیشن موصول ہونے کے بعد اس معاملے پر مزید کوئی فیصلہ کریں گے۔"

ترکی نے حالیہ برسوں میں میڈیا کے ضابطوں کو کافی سخت کر دیا ہے اور اے کے پی کے غلبے والی آر ٹی یو کے کو تمام آن لائن مواد کے حوالے سے مکمل اختیارات دے دیے ہیں۔ ملک کے تقریباً 95 فیصد مین اسٹریم میڈیا ادارے حکومت نواز کمپنیوں کی ملکیت میں ہیں۔

الماس توپجو(روئٹرز اور ڈی پی اے کے ساتھ) ج ا/ ص ز

ڈی ڈبلیو اردو کے پاکستان میں نمائندوں کے لیے آگاہی ایوارڈز

04:19

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں