ترکی پاک بحریہ کو چار طیارہ شکن جنگی بحری جہاز فروخت کرے گا
5 جولائی 2018
ترکی کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی نیوی کو چار توپ بردار جنگی بحری جہاز فروخت کرے گا۔ اس بات کی تصدیق پاکستانی بحریہ کی جانب سے بھی کر دی گئی ہے۔
اشتہار
ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی انادولو کے مطابق یہ بات ترک وزیر دفاع نورالدین جانیکلی نے اپنے مونٹینیگرو کے دورے کے درمیان کہی۔ انادولو نے اپنی رپورٹ میں جانیکلی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ طیارہ شکن بحری جہاز ترکی دفاعی صنعت میں تاریخ کی سب سے بڑی برآمد ہے۔
دوسری جانب پاکستانی بحریہ کے ایک اہلکار نے بھی ترک وزیر دفاع کے اس بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد حکومت نے ترکی سے چار ’میلگیم بلاک ون کلاس‘ طیارہ شکن بحری جہازوں کا سودا کیا ہے۔ تاہم یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اس سودے کی مالیت کتنی ہے۔
'میلگیم‘ طیارہ شکن بحری جہاز بنانے کا ترکی کا مقامی پروگرام ہے۔
پاک بحریہ کے اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ یہ طیارہ شکن توپ بردار جنگی بحری جہاز جدید اور خفیہ طرز کی اینٹی سب میرین ٹیکنالوجی سے لیس ہیں اور یہ کہ پاکستانی نیوی ان بحری جہازوں پر جدید اور روایتی دونوں طرز کے میزائل نصب کرنے کی اہل ہے۔
اطلاعات ہیں کہ نناوے اعشاریہ پانچ ملین لمبے ایسے پہلے دو جنگی بحری جہاز استنبول نیوی کے شپ یارڈ میں بنائے جائیں گے جبکہ باقی دو پاکستان میں کراچی کی جنوبی بندرگاہ پر تعمیر کیے جائیں گے۔
ص ح/ ع ح / نیوز ایجنسی
جنوبی ایشیا میں بحری جہازوں کے قبرستان
بھارت اور بنگلہ دیش میں بحری جہازوں کو توڑنے والے مزدوروں کوسخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران نہ تو حفاظتی اقدامات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی تحفظ ماحول کا۔ یہ لوگ جان جونکھوں میں ڈال کر یہ کام کرتے ہیں۔
تصویر: Tomaso Clavarino
بے یارو مددگار
یہ تصویر بنگلہ دیشی شہر چٹاگونگ کے شپ بریکنگ یارڈ کی ہے۔ اس صنعت میں کام کرنے والے ایک چوتھائی یا پچیس فیصد مزدور اٹھارہ سال سے کم عمر کے نوجوان ہیں۔ یہاں پر نہ تو مزدوروں کو کوئی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی ماحولیات کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت بھی اس معاملے پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔
تصویر: Tomaso Clavarino
استحصال
نوجوانوں اور کم عمر بچوں سے اکثر زیادہ کام لیا جاتا ہے اور انہیں دوسروں کے مقابلے میں تنخواہ بھی کم دی جاتی ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
غیر محفوظ
ناکارہ جہازوں کو توڑنے کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزدروں کو ہیلمٹ، خاص قسم کے جوتے یا حفاظتی چشمے فراہم کیے جانے چاہییں تاہم نہ تو بھارت اور نہ ہی بنگلہ دیش میں ایسا کیا جاتا ہے۔ شپ بریکنگ یارڈز میں مزدوروں کا شدید زخمی ہونا معمول کی بات ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
جھلسے ہوئے مزدور
’شیخو‘ چٹاگانگ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ وہ اس وقت شدید جھلس گیا، جب ايک بحری جہاز کو توڑتے وقت آگ لگ گئی تھی۔
تصویر: Tomaso Clavarino
معذوری
ادریس کبھی شپ بریکنگ صنعت کا ملازم ہوا کرتا تھا۔ ایک حادثے میں اس کی ٹانگ ضائع ہو گئی۔
تصویر: Tomaso Clavarino
زہریلی آلودگی
شپ بریکنگ سے صرف یہاں کے ملازمین ہی متاثر نہیں ہیں بلکہ ارد گرد کے علاقوں کے مکین بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ ناکارہ جہازوں سے بہنے والے تیل نے زیر زمین پانی کے ذخائر کو زہریلا بنا دیا ہے۔ ویلڈنگ کے دوران اڑنے والے دھوئیں نے بھی ماحول کو انتہائی آلودہ بنا دیا ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
کوئی امکان نہیں
جن جن علاقوں میں شپ بریکنگ یارڈز یا بحری جہازوں کے قبرستان موجود ہیں، وہاں کا ماحولیاتی نظام درم برھم ہو چکا ہے۔ اب وہاں نہ کھیتی باڑی کی جا سکتی ہے اور نہ ماہی گیری ہو سکتی ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
آلنگ
بھارتی ریاست گجرات میں آلنگ کا شپ بریکنگ یارڈ بحری جہازوں کا دنیا کا سب سے بڑا قبرستان کہلاتا ہے۔ یہاں پر کام کرنے والے تقریباً تمام ملازمین کا تعلق شمالی بھارت سے ہے۔ یہ لوگ انتہائی عام سی کٹیاؤں میں رہتے ہیں۔ 2009ء سے اب تک آلنگ میں دو ہزار چھ سو سے زائد بحری جہازوں کو توڑا جا چکا ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
’بچث‘
آلنگ میں مزدروں کے یہ کٹائیں یا مکان بہت چھوٹے ہیں۔ ان میں نہ تو پانی کا انتظام ہے اور نہ بجلی کی سہولت
تصویر: Tomaso Clavarino
وقفہ
شدید بارش کی صورت میں ملازمین کو کام چھوڑنا پڑتا ہے۔ بغیر کسی حفاظتی انتظام کے یہ لوگ کسی بھی متروک جہاز کے عرشے پر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Tomaso Clavarino
سیاحت بھی
بحری جہازوں کے ان قبرستانوں میں لوگ صرف ملازمت کی غرض سے ہی نہیں آتے بلکہ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بھی جہازوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھنے میں دلچسپی لیتی ہے۔ یہ لوگ ہر مرحلے کی تصاویر بناتے ہیں۔